جنرل راحیل فاتح کیوں نہ بن سکے ؟
Reading Time: 6 minutesجنرل راحیل شریف اس فوجی حکمت عملی کے خالق ہیں جو اندرونی دشمن سے لڑنے کے کام آئی۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ کی حیثیت سے انہوں نے پورا نصاب از سر نو ترتیب دے کر اس میں یہ نئی جنگی حکمت عملی بھی متعارف کرائی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے روڑے اٹکانے کے باوجود جب وہ آرمی چیف بننے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ان کے لئے زبردست موقع تھا کہ اپنے تشکیل دیئے نصاب کو عملا بھی ایک کامیاب نصاب ثابت کرکے دکھائیں۔ ضرب عضب اس نصاب کا عملی مظاہرہ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس نصاب نے اپنی افادیت ثابت کردی ہے لیکن کامیابی ثابت کرنا ابھی باقی ہے۔ کامیاب اسے تب ہی مانا جا سکتا ہے جب دشمن مٹ جائے یا ہتھیار ڈال کر اعترافِ شکست کرلے اور یہ دونوں چیزیں تاحال نہیں ہو سکیں۔ اگرچہ وہ بار بار دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ "دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے” لیکن دہشت گردوں کی کمر نہیں ہاتھ، پیر اور پسلیاں وغیرہ ہی ابھی ٹوٹی ہیں کیونکہ جس کی کمر ٹوٹ جائے اس کی حالت موت سے بھی بدتر ہوتی ہے، وہ کبھی بھی کوئٹہ اور اس کے اطراف میں حملے نہیں کر سکتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس نصاب میں کوئی خرابی ہے کہ حتمی فتح حاصل نہ ہو سکی ؟ نہیں ! ایسا نہیں ہے۔ پچھلے دو سال کے آپریشنز کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو کوئی شک و شبہ نہیں رہتا کہ یہ ایک بہترین نصاب ہے اور اس نے دشمن کے اوسان ہی نہیں پیشاب بھی خطاء کیا ہے۔ اور ایسا نصاب جنگوں میں فتح کی ضمانت ہوا کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر فتح ممکن کیوں نہ ہو سکی ؟ اور یہ بہت ہی کلیدی سوال ہے کیونکہ اس کا پوری گہرائی سے تجزیہ کئے بغیر اگلا آرمی چیف بھی کسی صورت فتح حاصل نہیں کر سکتا۔ میری نظر میں بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ چونکہ وہ اندرونی جنگ کا نصاب سوچنے اور تخلیق کرنے والے کمانڈر تھے اور پھر بطور آرمی چیف انہیں ہر حال میں اس کی افادیت ثابت کرنی تھی، ایک تو اس لئے کہ ملک کا امن لوٹایا جا سکے اور دوسرا اس لئے کہ ثابت کیا جا سکے کہ ان کا نصاب واقعی ایک شاندار نصاب ہے۔ اس دوہرے اور بہت بڑے پریشر کے دو ایسے نتائج نکلے جو فتح میں بڑی رکاوٹ بن گئے۔
پہلا نتیجہ یہ کہ اندرونی محاذ پر مکمل فوکس کے لئے وہ افغانستان اور بھارت کو ڈھیل دے بیٹھے اور اس ڈھیل میں ان کے اس اولین دورہ امریکہ کا بڑا اہم کردار ہے جو حیرت انگیز طور پر 2 ہفتوں پر مشتمل رہا۔ وہ اس عطار کے لونڈے کی باتوں میں آگئے جو شفاء نہیں بیماریاں بانٹتا ہے اور جس کا ڈسا پانی کو بھی ترستا رہ جاتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کو دو لخت کرنے والے بھارت کو صرف چند سال میں بیک فٹ پر دھکیل کر پاکستان سے خوف میں مبتلا کرنے والی حکمت عملی جنرل ضیاء نے متعارف کرائی تھی اور اس کامیابی سے متعارف کرائی تھی کہ بھارت نائن الیون تک اپنے اندرونی زخم چاٹتے چاٹتے عاجز آ چکا تھا۔ نائن الیون کے نتیجے میں اس کو کشمیر میں ریلیکس کرنے کا موقع ملا جبکہ رفتہ رفتہ اسے ملک کے باقی حصوں میں لگنے والے زخم بھی بند ہوتے ہوتے جنرل راحیل کے دور میں مکمل بند ہوگئے۔ اس دور میں اسے کوئی اندرونی زخم نہیں دیا گیا بلکہ الٹا تعاون کی پیشکشیں شروع کردی گئیں۔ جس کا نتیجہ ایک بہت بڑے "لول” کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ یہ اسی لول کا نتیجہ ہے کہ وہ ایزی ہو کر ہمیں اندرونی زخموں سے دوچار کرنے کے قابل ہے۔ اور افغانستان اس ضمن میں اس کو بھر پور مدد فراہم کر رہا ہے۔ مشرقی سرحد پر موجود بھارت اگر آج ہمیں مغربی سرحد سے زخم لگانے کے قابل ہو گیا ہے تو یہ ثابت کرتا ہے کہ جنرل ضیاء کی ڈاکٹرائین انتہائی جینئس ڈاکٹرائین تھی جسے ترک کرنا اس کی موت کے 28 سال بعد ہمیں پچھتانے پر مجبور کر رہا ہے۔
دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ جب وہ اندرونی طور پر فوکسڈ ہوئے تو انہیں وہ بھی دشمن نظر آنے لگے جو دشمن نہ تھے۔ میری مراد سیاستدان اور سول حکومت ہیں۔ انہوں نے ان کے خلاف بھی باقاعدہ محاذ کھول لیا اور دو دو جنگیں لڑنے لگے۔ ان کی پہلی جنگ ضرب عضب تھی جو وہ کور کمانڈروں کے ذریعے دہشت گردوں سے لڑ رہے تھے اور ان کی دوسری جنگ ضرب غضب تھی جو وہ دوسری تصویر میں دکھائے گئے اپنے "کروڑ کمانڈروں” کے ذریعے سول حکومت اور اس کے اتحادیوں کے خلاف لڑتے رہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے جنرل پاشا کے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو مسلسل ایکٹو رکھ کر ان کروڑ کمانڈروں کے لئے سول حکومت کے خلاف لڑنے کی غرض سے باقاعدہ محاذ تیار کیا۔ فوجی و عسکری امور کو قریب سے دیکھتے دیکھتے مجھے تیس سال ہو گئے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جب ماضی میں کوئی اخبار نویس کسی حاضر سروس آرمی چیف کا سیاسی معاملات میں اشارتا بھی ذکر کر دیتا تو اسے ایک کراری شٹ اَپ کال دی جاتی تھی اور تب وہ اخبار نویس رات کو سو سو بار خود پر آیت الکرسی دم کرکے سونے لگتا تھا۔ راحیل شریف کے دور میں ان کے تمام میڈیائی کروڑ کمانڈر روز ان کا نام لے لے کر ملک کو سیاسی انتشار میں مبتلا رکھتے رہے اور ایک بار بھی کسی کو شٹ اَپ کال نہیں دی گئی۔ کیوں ؟ کوئی فوجی ہی بتا دے آخر کیوں ؟ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ جب یہ جنرل راحیل کی ہی سکیم تھی تو وہ شٹ اَپ کال کیوں دیتے ؟ مارشل لاء کا ان کا کوئی ارادہ تھا اور نہ لگا سکتے تھے کیونکہ آزاد عدلیہ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں اب یہ ممکن ہی نہیں رہا۔ ان کی اس جنگ کا کل مقصد بس یہ تھا کہ مذکورہ تین اداروں کی موجودگی کا تمامتر فائدہ سیاستدانوں کے حق میں ہے اور اس کے نتیجے میں سول حکومتیں اگر دن بدن مضبوط ہوتی چلی گئیں تو ہمارے بچے کھچے غیر آئینی و غیر مرئی اختیارات بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے لھذا لازم ہے کہ سول حکومتوں کو مضبوط نہ ہونے دیا جائے۔
بھارت اور افغانستان کو کھلی چھوٹ دینے اور سول حکومت کو کمزور کرنے کے لئے ملک کو مسلسل سیاسی انتشار میں مبتلا کرنے والی ان دو غلطیوں کا نقصان یہ ہوا کہ ایک طرف بھارت کو مکمل اطمینان کے ساتھ آپ کو پراکسی وار میں الجھائے رکھنے کا موقع مل گیا اور دوسری طرف خود آپ نے ہی قوم کو کروڑ کمانڈروں کے ذریعے مسلسل سیاسی انتشار کا شکار کرکے بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کردیا۔ جب قوم ہی سیاسی بے یقینی کا شکار ہو، جب قوم ہی یکسو نہ ہو تو آپ جنگ کیسے جیت سکتے ہیں ؟ کیا انسانی تاریخ کے کسی ایک بھی عسکری ریفرنس سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ بے یقینی کی شکار قوم بھی جنگ جیت سکتی ہے ؟ میں تو عسکری تاریخ کے اوراق کے انبار لگا کر دکھا سکتا ہوں کہ عہد جدید و قدیم کے تمام فوجی کمانڈروں کا اس بات پر اجماع چلا آ رہا ہے کہ منتشر قوم کبھی بھی جنگ نہیں جیت سکتی۔ صدمے سے مر جانے والا مقام ہے کہ جنرل راحیل کے کور کمانڈر جو ضرب عضب جیتنے کے لئے لڑتے رہے اسے ناکام کرنے میں جنرل راحیل شریف کے میڈیائی کروڑ کمانڈروں کا ہی کلیدی کردار رہا ہے۔
اب یہ آنے والے چیف پر منحصر ہے کہ وہ جنرل راحیل کی مذکورہ دونوں غلطیوں کا ازالہ کرتا ہے یا نہیں۔ اور ان سے 29 نومبر کو صرف کور کمانڈروں کی کمان لیتا ہے یا کروڑ کمانڈروں کی قیادت بھی حاصل کرتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے ٹھنڈے دماغ سے غور کیجئے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ جنرل راحیل نے حربی حوالے سے بھارت کو سوائے ایل اوسی پر گولہ باری کا جواب گولہ باری سے دینے کے اور کیا کیا ہے ؟ ابھی چار روز قبل وہ کہہ رہے تھے "جس دن بھارت نے ہمارے 7 فوجی مارے اسی دن ہم نے اس کے 11 فوجی مارے” کیا یہ کوئی میچ ہو رہا ہے جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کس نے زیادہ وکٹیں گرائیں ؟ کیا یہ ایک سنگین مذاق نہ تھا ؟ کیا اب ہم یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے رہیں گے کہ ہم نے زیادہ وکٹیں گرائیں ؟ آپ ایل او سی پر جوابی گولہ باری سے اسے بیک فٹ پر نہیں دھکیل سکتے۔ آپ کو بلوچستان کا جواب ممبئی میں دینا ہوگا اور جب آپ یہ دیں گے تو اس کی ساری فارن انویسٹمنٹ اڑن چھو ہونے لگے گی۔ تب وہ دوڑتا ہوا مذاکرات کی میز پر آئے گا اور آپ سے امن کی بھیک مانگے گا۔ یہ وہ 90 کی دہائی والا بھارت نہیں ہے بلکہ 2004ء کے بعد والا وہ بھارت ہے جس کی معیشت فارن انویسٹمنٹ پر کھڑی ہے۔ اور یہی اس کی اور خود امریکہ کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ آپ اجیت دوول کی طرح صاف اعلان کردیں کہ ہم بلوچستان کا جواب ممبئی میں دیں گے تب آپ دیکھیں گے کہ وہ دم دباتا ہے یا نہیں ! اسی طرح اگر جنرل راحیل سے کروڑ کمانڈروں کی قیادت بھی لی گئی تو لایئے لکھ کر دیتا ہوں کہ آپ کمر توڑ بیانات کے انبار ہی لگاتے رہ جائیں گے دشت گردوں کے خلاف حتمی کامیابی نہیں ملے گی۔ آپ کو سوچنا ہوگا کہ جنرل راحیل فاتح کیوں نہ بن سکے ؟ اور اس سے سیکھنا ہوگا !