پاکستان

ہجوم کے ہاتھوں قتل مشال سپرد خاک

اپریل 14, 2017 2 min

ہجوم کے ہاتھوں قتل مشال سپرد خاک

Reading Time: 2 minutes

خیبر پختونخوا کے شہر مردان کی عبدالولی خان یونیوسٹی میں مشتعل طلبہ کے ہاتھوں توہین مذہب اور توہینِ رسالت کے الزام پر قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ آبائی علاقے زیدہ صوابی میں سپرد خاک کردیاگیا، نمازہ جنازہ کے موقع پر ہرآنکھ اشکبار تھی، جنازے کی تصاویر سے معلوم ہوتاہے کہ پانچ سو کے لگ بھگ افراد شریک ہوئے، یونیورسٹی کے طلبہ اور رشتہ داروں کے علاوہ مقامی افراد نے اہل خانہ سے تعزیت کی۔مشال خان کے قتل کامقدمہ شیخ ملتون تھانے میں درج کیاگیا ہے جس میں بیس افراد کو ملزم نامزد کیاگیا ہے،پولیس حکام کاکہناہے کہ نامزد ملزمان میں سے آٹھ کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ مقدمہ میں قتلِ عمد کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات بھی شامل کی گئی ہے۔پولیس حکام کاکہنا ہے کہ ملزمان کی شناخت ویڈیوز کے ذریعے کی گئی اور بقیہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس کی تین ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبا کے ہاتھوں مشال خان کے قتل کا واقعے جمعرات کی صبح پیش آیا جب سینکڑوں طلبا نے ہوسٹل میں گھس کر خان سمیت تین طلبا پر شدید تشدد کیا۔اس تشدد کے نتیجے میں مشال خان کی موت واقع ہوگئی جبکہ دیگر دو طلبا شدید زخمی ہیں۔پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پہنچی تو مشتعل مظاہرین مقتول کی نعش جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ واقعے کے بعد عبدالولی خان یونیورسٹی اور مردان شہر میں کشیدگی پھیل گئی اور یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ۔ گورنر خیبر پختونخوا نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔ مارے جانے والے طالب علم مشعل خان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق مشتعل ہجوم نے پہلے تو مشال خان کے دوستوں کو مارنا شروع کیا تاہم وہاں موجود چند لوگوں نے جب انھیں بتایا کہ ان میں سے کوئی بھی خان نہیں تو ان افراد نے ان دو طالب علموں کو شدید زخمی کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق بعد میں چند طالب علموں نے مشال خان کو ڈھونڈ کر پہلے تو مبینہ طور پر گولیاں ماریں اور پھر مبینہ طور پر ان کی لاش کو گھسیٹے ہوئے لے کر آئے۔موقع پر موجود کئی افراد نے واقعہ کی اپنے موبائل فون کے ذریعے فلم بندی کی اور اسے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شائع کیا۔ قتل کے اس واقعہ کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شدید مذمت کی جارہی ہے تاہم بعض مذہبی افراد اس افسوس ناک اور بہیمانہ قتل کی حمایت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اس کیلئے جواز بھی تراش رہے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے