کالم

اقامہ بن لادن

جولائی 31, 2017 5 min

اقامہ بن لادن

Reading Time: 5 minutes

جی ہاں "سسیلین مافیا” کے خلاف خوفناک ثبوت سامنے آگیا ہے۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والے اس ثبوت کا نام ہے اقامہ۔ تقریباً ڈیڑھ سال سے پاناما کے معاملے پر اس قوم کو سولی پر چڑھائے رکھنے کے بعد اپوزیشن قیادت خفیہ اداروں والی جے آئی ٹی اور عدلیہ کو ایک وزیر اعظم کے خلاف اقامہ مل ہی گیا۔یہ اقامہ تو اسامہ سے بھی بڑی دریافت ہے۔ شاید اسی لیے تو اسامہ بن لادن ملنے کے بعد کوئی نا اہل نہیں ہوا اور اقامہ بن لادن کی دریافت وزیر اعظم کی نااہلی پر منتج ہوئی۔ مان لیتے ہیں کہ اسامہ اور اقامہ دونوں ہی پہلے سے” ہمارے "پاس نہیں تھے۔ اسامہ کو امریکہ نے دریافت کیا اور اقامہ کو جے آئی ٹی نے۔
ذرا سوچیے اگر یہ اقامہ بھی نہ ملتا تو پھر کیا ہوتا؟ ذرا اس سے بھی پہلے جائیے اگر پاناما ہی نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ پہلے منظم دھاندلی نے طویل عرصہ سے اس قوم اور اسکی منتخب حکومت کو عالم نزاع میں رکھا اور پھر صحافیوں کی عالمی تنظیم نے پاناماکا بھانڈا پھوڑ دیا۔ ” اللہ دے بندہ لے” عالمی میڈیا میں خبر کا مطلب تو یہی ہوتا ہے ناں کہ ہمارے ملک کی سیاسی قیادت بدعنوان اور مافیا ثابت ہو چکی؟ہاں اگر اسی عالمی میڈیا میں ہماری فوجی حکومتوں اور انکے دور کی عدلیہ سے متعلق کچھ آ جائے تو وہ ملک اور ریاست پاکستان کے خلاف ایک سازش قرار پاتی ہے۔
وکی لیکس میں جو کچھ ہماری حکومتوں اور اداروں کے بارے میں آشکار ہوا ہے اس کے بعد تو ہمیں کسی سووموٹو کاروائی اور عملدرآمد بینچ کی بھی ضرورت نہیں۔ ایسے میں ڈوب کر مرنے کے لیے کالاباغ ڈیم نہیں چلو بھر پانی کی ضرورت ہے۔ مگر کیا ہے کہ "قانون اندھا ہے”۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں قانون ساز اور قانون دان دونوں ہی اندھے ہیں۔ یہ اندھا پن بھی بے وجہ نہیں ہے۔ جب چناؤزندگی اور بینائی کے بیچ ہو تو بینائی کیا بیچتی ہے۔
پاناما سے پہلے ایک ایگزیکٹ کمپنی کا سکینڈل بھی آیا تھا جس پر کالے بوٹوں اور کالے کوٹوں نے اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ گونگا بہرہ ہونے میں ہی غنیمت جانی۔ اسکی وجہ واضح تھی کہ اس سکینڈل میں نہ صرف یہ کہ کوئی وزیر اعظم ملوث نہیں تھا بلکہ اس کمپنی کے پیچھے جن قوتوں کے ہاتھ تھے ان پر چوہدری نثار جیسے "امن پسند” وزیر داخلہ ٹھوس کاروائی کرنے کی بجائے محض کاغذی کاروائی ہی ڈال سکتے تھے۔ اور جب مدعی سست ہو گیا اور گواہان خاموش تو پھر ایسے احتساب میں سووموٹو کی لچ تلنے کی کسے جرات پڑتی۔ "عظمی” اور "عالیہ” اس معاملے میں "وقار” سے پھڈا نہیں مول لے سکتی تھی۔اس ملک میں اگر ایگزیکٹ کمپنی کے کاروبار اور فنڈنگ پر ایک ایسی ہی جے آئی ٹی بنا دی جاتی تو اس میں سے کیا کیا نہیں نکلتا۔ اس کمپنی اور اسکے چینل کے پیچھے جو فرشتے ہیں ان پر جے آئی ٹی ذرا بنا کر تو دکھائیں تو جناب پاناما جے آئی ٹی میں فوج کو ملوث کرکے پاناما کا جو پہاڑ کھودا گیا اس میں سے اقامہ کا چوہا بر آمد کر کے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
کسی بھی عدالتی فیصلے کو تاریخی بنانے کیلئے اس سے زیادہ آسان طریقہ اور کیا ہو گا۔ وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے بارہا کہا کہ کپیٹل ایف زی ای کمپنی سے متعلق معلومات اور دستاویز ات کو وزیر اعظم کے بیان ریکارڈ کرتے وقت انکے سامنے رکھا ہی نہیں گیا۔
معاملہ وزیر اعظم نواز شریف کے دو ہزار تیرہ میں حلف اٹھانے کے بعد دو ماہ کی تنخواہ کا تھا جو اس کمپنی کی دستاویزات کے مطابق انکے لیے قابل وصول تھی۔ تنخواہ کی وصولی تو ثابت نہ ہوئی مگر محض دس ہزار درہم کی تنخواہ کا ” قابل وصول” ہونا بھی نیب قانون میں جرم تصور کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو اس معاملے پر مزید تحقیق اور نواز شریف کو طلب کر کے انکا ذاتی بیان بھی ضروری تھا جو نہیں ہوا۔ مختصر یہ کہ عدالت نے وہ عنایت کر دیا جو درخواست گزار نے مانگا ہی نہیں تھا اور اسے سزا سنا دی جسے سنا ہی نہیں گیا۔ اس معاملے پر وزیر اعظم نا اہل ہو گیا جو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے باقاعدہ طور پر آیا ہی نہیں۔ اخبارات اسے پاناما کا فیصلہ کہہ رہے ہیں اور دنیابھر کا میڈیا وزیر اعظم کی نا اہلی کو پاناما سے جوڑ رہا ہے۔ شاید مقصود بھی ایسا ہی ہوگا۔یہ سب غلط ہے پاناما کیس میں تحریک انصاف اور دوسرے درخواست گذاروں کی اس استدعا کو مسترد کر دیا گیا جس میں لندن فلیٹوں اور ان سے متعلق مبینہ غلط بیانی کی بنیاد پر وزیر اعظم کی نا اہلی مانگی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف وزیر اعظم کی پاناما معاملے میں نا اہلی کا مقدمہ فی الوقت ہار چکی ہے۔
پاناما کا معاملہ اب احتساب عدالتوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ پاناما پر جے آئی ٹی رپورٹ میں ” اضافی ٹھوس شواہد” آگئے تھے تو نا اہلی بوجہ پاناما کا فیصلہ کیوں کر کیا گیا ؟ وجہ صاف ظاہر ہے ایک سیاسی معاملے کی سماعت کی غلطی کے بعد نا اہلی بوجہ پاناما سیاسی انتشار کا سبب بنتی اور الزام درست طور پر عدلیہ کے سر جاتا۔ نواز شریف جیسے سیاست دان کی نااہلی کا مکمل کریڈٹ عمران خان جیسے سیاستدان کو دینا بھی خفیہ ہاتھوں کیلئے خطرناک تھا۔ عمران خان کی شکل میں ایک نیا نواز شریف اب کسی کو نہیں بننے دیا جائیگا۔”چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے”۔
عجیب بات یہ بھی ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ پانچ ججوں نے پانچ صفر سے نواز شریف کو نا اہل کیا ہے۔ اس سے زیادہ گمراہ کن بات نہیں ہو سکتی۔ پہلی بات جب دو ججوں نے لندن فلیٹوں پر اختلافی نوٹ کے ذریعے نواز شریف کو "گاڈ فادر” قرار دے کر نا اہل کیا تھا تو تین ججوں نے فوری نا اہلی کے اس فیصلے کو اس وقت بھی مسترد کردیا اور پھر آج بھی انہوں نے پاناما کیس کے لندن فلیٹوں کی بنیاد پر نواز شریف کی نا اہلی سے انکار کیا ہے اور معاملہ احتساب عدالتوں میں بھیج دیا ہے۔ اب اگر عدالت پاناما جیسے بنیادی مسئلے پر نا اہلی سے انکار کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کو نا اہل بھی نہ قرار دیتی تو عدلیہ کا ” وقار” خطرے میں پڑ جاتا۔
تو جناب وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی بوجہ اقامہ در اصل تین ججوں کا فیصلہ ہے دوسرے دو ججوں کی طرف سے ان کی نا اہلی بوجہ پاناما تین ججوں نے مسترد کر کے معاملہ احتساب عدالتوں کو بھیج دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے دو ججوں نے نا اہلی بوجہ اقامہ والے حکم پر دستخط کر کے اپنے نا اہلی بوجہ پاناما کے مسترد شدہ فیصلے کو عزت بخشنے کی کوشش کی ہے۔ ان دو ججوں کو چاہیے تھا کہ وہ نا اہلی بوجہ اقامہ والے حکم پر دستخط کر تے وقت ایک وضاحت ضرور تحریر کرتے کہ چونکہ وہ عمل در آمد جے آئی ٹی پورٹ اور اقامے کے معاملے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے اور انہوں نے خاص کر کپیٹل ایف زی ای کمپنی پر دلائل سنے ہی نہیں تو اس لیے وہ وزیر اعظم کی نا اہلی بوجہ اقامہ کے فیصلے میں شامل نہیں ہو سکتے اور یوں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نااہلی بوجہ اقامہ کا فیصلہ تین دو کا ہے نہ کہ پانچ صفر کا۔
بیس سال بعد کوئی ” صادق” نامی بچہ اس تاریخی فیصلے کو سکول میں بیٹھا یوں یاد کرے گا۔” میرے دادا کہتے تھے کہ انہوں نے ایک حکم لکھ کر وزیر اعظم کو اسکے گھر سے نکال دیا تھا”۔ اس کے سامنے بیٹھا ” امین” نامی بچہ بولے گا "کتاب میں تو لکھا ہے کہ ماضی میں فوجی آمروں اور انکی کینگرو عدالتوں نے گٹھ جوڑ کر کے وزیر اعظموں کو پھانسی دی اور انکو حکومت سے نکال باہر کیا”۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے