کالم

کمان کی چھڑی

اگست 7, 2017 6 min

کمان کی چھڑی

Reading Time: 6 minutes

منگل کے دن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تقریب حلف برداری کیلئے کافی عرصے بعد ایوان صدر میں داخل ہوا۔ آج کل یہاں ممنون حسین رہائش پذیر ہیں۔ موبائل فون اور چابی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کرنے کے بعد بذریعہ لفٹ پانچویں فلور پر پہنچے تو صدر ہاﺅس کی تعمیراتی عظمت سامنے تھی۔ اونچی دیواروں کے دونوں اطراف تمام صدور کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں تھیں۔ سکندر مرزا سے لے کر ممنون حسین تک ایوان صدر کے رہائشیوں کے رنگین پورٹریٹ اور ان پر مرکوز خصوصی روشنیاں سب کے چہروں کے نور میں بے بہا اضافہ کر رہی تھیں۔ ان دیواروں پر آئین کو پامال کرنےوالے اور عدالتوں سے غاصب اور آئین سے سنگین غداری کے مرتکب قرار دئیے جانےوالے جنرل یحٰی اور جنرل مشرف بھی مسکراتے ہوئے تقریب حلف برداری کے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں ہم نے دیکھے ہیں ایسے بڑے وزیر اعظم جو یہاں سے گذر کر ہی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے ایوان میں داخل ہوئے تھے۔ جنرل مشرف تو خصوصاًبہت خوش نظر آ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ "تم صحافی لوگ اور حکمران ن لیگ یونہی عوام کو بیوقوف بنا رہے ہو۔” میں تو بڑی عزت اور احترام سے ایوان صدر کی دیوار تاریخ پر آویزاں ہوں اور باہر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے میں آئین سے سنگین غداری کا کوئی بہت بڑا مجرم اور اس وجہ سے بھگوڑا ہوں۔ خیال آیا کہ دستور اور گلی دستور کی خالق جماعت اور اسکے سینیٹر اور سینٹ چیئرمین جناب رضا ربانی بھی کئی بار یہاں سے گذرے ہوں گے اور جنرل مشرف یقیناً ان پر آوازے کستے ہونگے۔ مگر یہاں حکومت نہیں ریاست کا کنٹرول چلتا ہے۔ ہمارے ہاں ریاست فوج کو کہتے ہیں۔ ایوان صدر فوج کے زیر کنٹرول ہے جسکی ایک مثال وہ صدارتی باڈی گارڈ کی بٹالین ہے جس نے صرف اور صرف فوجی آمروں اور ڈکٹیٹروں کی ہی دل و جان سے حفاظت کی اور صدر رفیق تارڑ کو جب ایوان صدر فوری خالی کرنے کا "نوٹس ” ملا تو صدارتی باڈی گارڈ کے گھوڑے گھاس چرنے گئے ہوئے تھے اور تارڑ صاحب خاموشی سے صدارتی ٹانگے یا بگھی کی آخری سواری کے بغیر ہی چند گاڑیوں میں سامان لادھ کر چل دئیے۔
جنرل مشرف کے پورٹریٹ کے ساتھ ہی صدر رفیق تارڑ اپنے پورٹریٹ میں سہمے سہمے نظر آئے جیسے کہہ رہے ہوں تاریخ نے مجھے کس کے ساتھ پھنسا دیا ہے۔ تاریخ کا جبر تو ہے نہ کہ جسے ٹانگنا چاہیے تھا اسے آویزاں کر دیاگیا اور جسے آویزاں ہونا چاہیے تھا اسے ٹانگ دیا گیا۔ سامنے ہی وہ ہال تھا جس کے بلند داخلی دروازوں سے کئی ہاتھی گذر چکے تھے یہاں سے گذر کر ہی کئی سیاستدانوں اور چیف جسٹس صاحبان نے فوجی فرمانوں پر حلف اٹھائے اور آئین اور قانون کی فصلوں کو اجاڑا۔جلد ہی ہال مہمانوں سے بھر گیا۔ اراکین قومی اسمبلی اہم بیوروکریٹ صاحبان ، میڈیا کے نمائندوں کے علاوہ شاہد خاقان عباسی کے علاقے مری سے انکی برادری اور اہل خانہ کی ایک مقامی اخبار کی لگائی گئی اس سرخی کی طرف واضح توجہ دلا رہی تھی جس کے مطابق آٹھ سو سال بعد عباسیوں کو حکومت واپس مل گئی تھی۔ خبر بنانے والا شائد جانثار نہیں تھا کہ اس وقت کی حکومت اور آج کے وزیر اعظم کی "حکومت” میں کتنا فرق آچکا تھا۔
ادھر چار سال حکومت کرنے والا وزیر اعظم نہ چل سکا تھا تو عباسیوں کی دس ماہ کی حکومت کون چلنے دے گا۔ شاہد خاقان عباسی کے قومی اسمبلی میں انتخاب سے لیکر حلف برداری کی اس تقریب تک انکی پیشانی پر جتنا پسینہ آچکا ہے وہ بے وجہ نہیں۔ اچانک بگل بجا ہال کے دروازے کھلے اور ایوان صدر کے رہائشی جناب ممنون حسین نامزد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ ہال میں داخل ہو کر سٹیج پر کھڑے ہو گئے۔ قومی ترانے کی دھن بجنا شرع ہوئی تو تمام مہمان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔ افواج پاکستان کے سربراہان نے اپنی اپنی کمان کی چھڑی بغل میں دبائی اور سلیوٹ کے لیے ہاتھ اپنی پیشانیوں تک لے گئے۔ قومی ترانے میں ایسا جادو ہے کہ کھڑے ہونے اور سلیوٹ کرنے والوں کا جذبہ آسمانوں کو چھوتا ہے۔ مگر شاید اس ترانے کے دوران دل میں کیے گئے سلیوٹوں سے زیادہ بارودی سلیوٹ زیادہ توجہ اور عزت لے جاتے ہیں۔ شاید "پر وقار تقریب” اسی کو کہتے ہیں۔ ترانہ ختم ہوا تو ایک عجیب بات ہوئی جسکو کسی نے نوٹس نہ کیا اور جس نے کیا اس نے ذکر نہ کرنا مناسب سمجھا۔ ترانے کے اختتام پر فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جونہی اپنا سلیوٹ ختم کیا اور اپنا دائیاں ہاتھ بغل میں موجود کمان کی چھڑی کی طرف بڑھایا تو وہ چھڑی انکے ہاتھ کو چھوتے ہوئے زمین پر جا گری۔ تاریخی چھڑی زمین پر جا پڑی۔ ایسے حالات میں آرمی چیف کے ساتھ ہمہ وقت موجود فوجی سٹاف فوری طور پر آگے بڑھ کر چھڑی کو زمین سے اٹھا لیتا ہے مگر وہ سٹاف آفیسر بھی پچھلی قطار میں تھے اور انکے آگے آنے تک کمان کی چھڑی زمین پر رہنا کسی صورت بھی قابل قبول نہیں تھا۔ آرمی چیف اپنی قد آور شخصیت اور فوجی میڈلوں کی جھرمٹ میں کسی صورت بھی کمان کی چھڑی کی خاطر جھکنے کو تیار نظر نہیں آ رہے تھے۔ وقت تھم سا گیا تھا۔ ترانے کے بعد مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ رہے تھے کمان کی چھڑی کے بغیر نشست پر بیٹھنا بھی کوئی آپشن نظر نہیں آ رہا تھا۔ پانچ سکینڈ گذرے اور مزید پانچ سکینڈ میں سٹاف افسر پچھلی قطار سے آگے آ کر چھڑی اٹھا سکتا تھا مگر تب تک ہال کے مہمانوں کی توجہ بھی اس بظاہر معمولی واقعے کی طرف پڑ جاتی۔ پھر اچانک ہی آرمی چیف کے ساتھ کھڑے پاک فضائیہ کے سربراہ سہیل امان حرکت میں آئے اور پلک جھپکتے میں کمان کی چھڑی کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچا دیا۔ آرمی چیف نے انکا شکریہ ادا کیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ کر دنوں ہاتھوں سے کمان کی چھڑی کو مضبوطی سے پکڑا اور چند لمحے اسے گھورنے کے بعد حلف اٹھاتے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف متوجہ ہو گئے۔
تقریب کے آغاز سے پہلے آرمی چیف اپنی دائیں سیٹ پر بیٹھے عابد ریاض سے محو گفتگو رہے۔ عابد ریاض انیس سو ستتر سے انیس سو اناسی تک آئی آیس آئی کے سربراہ میجر جنرل محمد ریاض کے فرزند ہیں۔ نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مرحوم میجر جنرل محمد ریاض کے داماد اور عابد ریاض کے برادر نسبتی ہیں۔ میجر جنرل ریاض بطور سربراہ آئی ایس آئی انتہائی ایماندار اور مذہبی رجحان کے حامل شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انیس سو اناسی میں بھٹو کی پھانسی سے کچھ عرصہ پہلے وہ دل کا دورہ پڑنےکے باعث وفات پا گئے تھے۔ حلف برداری کے تقریب کے بعد چائے پر صدر مملکت اور نئے وزیر اعظم مہمانوں میں گھل مل گئے۔ صدر ممنوں حسین کی طبیعت کچھ اتنی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ کچھ سیاستدان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گرمجوشی سے مل رہے تھے۔ سینیٹر مشاہد اللہ جنہوں نے بعد میں بطور وزیر ماحولیات دوبارہ جگہ پائی تقریب میں خاص طور پر آرمی چیف سے محو گفتگو رہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ انکے بھائی آپکا (مشاہد اللہ) کا ذکر کرتے ہیں۔ مشاہد اللہ اس ملاقات کے بعد کافی مطمئن نظر آئے۔ آرمی چیف اس تقریب میں ایک مہمان ہونے کا تاثر دے رہے تھے۔ صدر ممنون حسین سے زیادہ وہ توجہ کا مرکز بنے رہے۔ وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کی تقریب ختم ہو گئی۔ واپسی پر انہی تصویروں پر نظر پڑی تو پھر جنرل مشرف کی شیروانی والی تصویر سے آواز آئی۔ ” یہاں بڑے بڑے حلف اٹھانے والے آئے۔۔۔ میں نے بھی بڑے حلف اٹھائے اور ایسی تقاریب میں بطور آرمی چیف شریک بھی ہوتا رہا۔۔۔ہمارا اصل کام تو حلف برداری کی تقاریب کے بعد شروع ہوتا ہے۔” وہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے جو ایوان صدر اور کاکول اکیڈمی کے حلفوں میں نہ کرنے کا عہد کیا جاتا ہے۔ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر جو بعد میںغیر آئینی چیف جسٹس قرار پائے انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حلف تو ایک رسمی کاروائی ہوتی ہے جسکے بغیر آپ اپنا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ ڈوگر صاحب تو غیر آئینی چیف جسٹس قرار پائے مگر آئین پر حلف اٹھانے والوں نے ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں کیا۔ فیصلہ کچھ ایسا ہوا کہ "سانپ” بھی مر گیا اور کمان کی چھڑی بھی نہ ٹوٹی۔ نواز شریف صاحب تو فارغ ہو گئے مگر عمران خان کو بھی مزہ نہ آیا کہ پانامہ کیس میں نا اہلی نہ ہوئی وگرنہ عمران خان چھڑی کے اثر میں نہ رہتے۔ مزہ تو اب عمران خان کو چکھایا جا رہا ہے اپنی اوقات میں رہنے کیلئے عائشہ گلالئی کے معاملے سے ہمارے ادارے بے خبر تو کبھی بھی نہ تھے صرف وقت کا انتظار تھا۔ سب سیاستدانوں میڈیا اور عدلیہ کو یوں ” بے نقاب” کر کے اب یہ ثابت کردینے کی آخری کوشش ہے کہ جمہوریت آئین اور سیاستدان اپنی ذمے داریوں میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ باری باری استعمال ہونے والے تمام سیاستدان اپنی سوچ اور پالیسیوں پر غور کریں۔ ایسے میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے اور انکی جماعت خود انہیں کمزور ثابت کرنا چھوڑ دے۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے