آئی ایس آئی نے ہتھیار بیچ دیے
Reading Time: 2 minutesپارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے جلدی بازی میں ہتھیاروں کے فروخت کے ایک ایسے متنازع سودے کی منظوری دی ہے جس پر آڈیٹر جنرل نے اعتراض اٹھائے تھے، مسلم لیگ ن کے ایک قانون ساز نے ہتھیاروں کی اس بے ضابطہ فروخت پر آڈیٹر جنرل کے اعتراضات کو وزن دینے کی بات کی لیکن کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ پہلے ہی صدارت ق لیگ کے سینٹر مشاہد حسین کے حوالے کرکے جا چکے تھے۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے سامنے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی جانب سے نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے اتھارٹی کو ایک کروڑ بارہ لاکھ کے ہتھیاروں کے فروخت کے معاہدے اور سڑک حفاظتی اقدامات کی مہم پر آڈٹ رپورٹ میں اٹھائے گئے اعتراضات تھے، یہ فنڈز سنہ دوہزار تیرہ چودہ میں استعمال کیے گئے تھے۔ سودے کے مطابق آئی ایس آئی نے پانچ سو سب مشین گنیں اور ان کی ایک لاکھ چھتیس ہزار گولیاں موٹروے پولیس کو فروخت کیں۔
جس وقت کمیٹی نے معاملہ اٹھایا تو بہت سے ارکان کیلئے یہ اچھنبے کی بات تھی کہ آئی ایس آئی ہتھیار وں کی فروخت کا کاروبار بھی کرتی ہے۔ سینٹر مشاہد حسین نے فوری طور پر اعتراض والا آڈٹ پیرا درست کیا اور کہا کہ یہ معاملہ ٹھیک ہے۔ حکومتی پارٹی کے ایک سینٹر نے اس کی مخالفت بھی کی مگرمشاہد حسین جلدی میں تھے۔ پیپلزپارٹی کے سینٹروں نے اس موقع پر بحث میں حصہ نہیں لیا۔
بعض سینٹروں نے آئی ایس آئی کے پاس ہتھیاروں کے اس ذخیر ے کی موجودگی پر سوال اٹھائے تو مشاہد حسین نے خود سے ہی جواب دے دیا کہ ہوسکتا ہے یہ ذخیرہ اسی کی دہائی میں سوویت افغان جنگ کے دوران لیا گیا ہو اور ابھی تک استعمال نہ کیا گیا ہو ۔ مشاہد حسین نے اکاوئنٹس کے شعبے کی جانب سے دی گئی ضروری محکمانہ سفارشات کا بھی خیال نہ کیا۔ حکومتی جماعت کے سینٹرچودھری تنویر خان نے سینٹر مشاہد حسین سے زور و شور سے مطالبہ کیاکہ بطور چیئرمین کمیٹی وہ معاملے کی انکوائری کرائیں۔ چودھری تنویر نے کہاکہ آئی ایس آئی ملک کا ایک انتہائی اہم اور معتبر محکمہ ہے مگر ہتھیاروں کی فروخت اس کا کام نہیں، سینٹر نے مطالبہ کیاکہ آئی ایس آئی کو یہ وضاحت کرنا چاہیے کہ کیااس کے پاس ہتھیار فروخت کرنے کا اختیار تھا اور یہ ہتھیار کہاں سے خریدے گئے تھے۔ مشاہد حسین اس بات پر زور دیتے رہے کہ اس معاملے میں انکوائری کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن چودھری تنویر خاموش نہ بیٹھے اور کہنے لگے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم اتنے غیر محفوظ یاخوفزدہ کیوں ہیں، ا گریہ کوئی اور محکمہ ہوتا تب تو اس کے سربراہ یعنی آئی جی موٹروے کو مثالی سزا دی جاتی ۔ جب مشاہد حسین نے کہاکہ موٹروے پولیس ایک انتہائی منظم اورباکمال محکمہ ہے تو سینٹر چودھری تنویر نے کہا کہ ایسے کام اس محکمے کی بنیادیں تباہ کرسکتی ہیں۔ مشاہد حسین نے کہا کہ آپ کا پوائنٹ لے لیا گیا ہے اب یہ آڈٹ پیرا درست کیا جاتا ہے۔ مشاہد حسین نے جلدبازی میں یہ بھی نہ دیکھا کہ قواعد کے تحت بعد از واقعہ قانون منظوری لے لی جائے۔
واضح رہے کہ آڈٹ رپورٹ میں یہ اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ ہتھیار پاکستان آرڈننس فیکٹری سے نہیں خریدے گئے، اسی طرح ان کو کھلی مارکیٹ سے مقابلے کے ذریعے بھی نہیں خریدا گیا، اسی طرح فروخت کنندہ نہ تو ہتھیار بنانے والا ہے اور نہ ہی آئی ایس آئی کوئی قانونی ہتھیار ڈیلر ہے۔