فوجی ترجمان کا بیان مسترد
Reading Time: 2 minutesڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے خلاف دارالعوام تعلیم القران میں پریس کانفرنس
راولپنڈی راجہ بازار کے مدرسہ تعلیم القرآن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر قاری عتیق الرحمن نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سانحہ راجہ بازار پر جو بیان دیا اس پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، م متاثرہ فریق ہیں، آئی ایس پی آر کے ڈی جی کا شکریہ ادا کرتے ہیں، واقعہ میں ملوث گرفتار 94 افراد پر عدالت نے فرد جرم عائد کی ہے، اب ان میں مزید دو دہشتگردوں کا اضافہ کیا گیا، فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس نے کچھ سوالات کو جنم دیا ہے جو قوم کت سامنے پیش کرتے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی کے بیان سے واقعہ کے حقائق پر منفی اثرات پڑے، واقعہ کے بعد تمام ایجینسیز کی معاونت سے پولیس نے تفتیش کی اور چالان پیش کیا، اس واقعہ میں ایجنسیز نے 132 افراد کو ملوث پایا، جن میں سے 94پر دہشتگردی سمیت 14 دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی، اب تک 21 گواہان کی شہادت ہو چکی، زیادہ گواہان پولیس ملازمین اورافسران ہیں، جن ملزمان کی شناخت سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ہوئی، جسکی تصدیق اداروں اور ایجنسیز نے کی، سب جانتے ہیں عدالت کسی ملزم پر فردجرم کب عائد کرتی ہے، تفتیش میں پولیس سمیت تمام ادارے شامل تھے، اس سانحے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اگر واقعہ پر علمائے کرام کا تعاون نہ ہوتا تو اس آگ کو کوئی نہ روک سکتا، سرکاری ملازمین نے ملزمان کی شناخت پریڈ کی،اس تصدیق میں نادرہ کی مکمل سپورٹ شامل ہے، اب چار سال بعد یہ بیان داغ دینا اس واقعہ کے رخ کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے، ہم متفق ہیں کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں، یہ اسلام،وطن دشمن ہے،پھر آپ اس کی بات پر اعتماد کیسے کر رہے ہیں،چار سال بعد دو ملزمان کی گرفتاری سے تحقیقاتی اداروں کی رفتار کا علم ہوتا ہے، اگر یہی دو ملزم ہیں تو کیا 94 گرفتار ملزمان بے قصور ہیں؟ایسا موقف پیش کرنے سے پہلے متاثرہ فریق سے رابطہ کرنا چاہیئے تھا،یکطرفہ موقف دیکر واقعہ کے رخ کو تبدیل کیا گیا، ہم ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، مقامی انتظامیہ کہتی رہی کہ مولانا امان اللہ کی اشتعال انگیز تقریر واقعہ کا موجب بنی، آئی آیس پی ار کہتا ہے کہ واقعے کی منصوبہ بندی ایک سال قبل کی گئی، ملک کو خون میں نہلانے کے لئے پہلے بھی بہت سی سازشیں ہوئیں،لیکن ان کے سامنے بند ہم نے باندھا، اب محرم قریب ہے اور چار سال پرانے واقعہ کو اٹھا دیا گیا، اہل تشعیہ قیادت کی جانب سےبیان آئے، کہنا چاہتے ہیں خدارا سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، م نے کب کہا کہ ہمارا قاتل شیعہ ہے،ہم کہتے ہیں جو قاتل ہے اسے سزا دی جائے، عدالت نے حقائق پر فیصلہ کرنا ہے، وکیل قاضی حفیظ الرحمن نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مقدمہ کو فوجی عدالت میں لے جایا جائے،مولانا ادریس حقانی نے کہا کہ ہمیں ملک کے ہر ادارے پر اعتماد ہے، چار سال سے اپنے خون کا حساب ملکی اداروں سے مانگ رہے ہیں،قاری عتیق نے کہا کہ ہمارے قاتل گرفتار کئےجائیں اور انھیں ملکی قانون کے مطابق سزا دی جائے، نازک حالات میں معاملات کو سلجھانا چاہیئے،سوچ سمجھ کربولنا چاہیئے،ابھی تک کی تفتیش بھی تو یہی ادارے چلا رہے ہیں،قاری عتیق کا کہنا تھا کہ واقعہ ہوا تمام ادارے متحرک ہوئے،ہمیں بھی اسوقت اداروں کی سنجیدگی نظر آئی،