نظرثانی اپیلیں پانچ جج ہی سنیں گے
Reading Time: 2 minutesپانامہ فیصلے پر نظر ثانی اپیلوں کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی تو نواز شریف اور ان کے بیٹوں کے وکیلوں نے بنچ کی تشکیل پر سوال اٹھائے اور کہا کہ جب فیصلے پر پانچ دستخط ہیں تو پانچ ہی جج نظر ثانی اپیل سن سکتے ہیں_
وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی پہلے سنی جائے، سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ تین رکنی بنچ کا فیصلہ پانچ رکنی بنچ میں ضم ہوگیا تھا_ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اصل فیصلہ تو تین رکنی بنچ نے ہی دیا تھا، اگر تین رکنی بنچ کے فیصلے کو تین رکنی بنچ نے ہی ختم کر دیا تو پانچ کا فیصلہ نہیں رہے گا_ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ لارجر بنچ کے فیصلے کے خلاف الگ سوالات اٹھائے گئے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوالات جو نظر ثانی میں اٹھائے گئے ہیں ان میں تو یہ بھی ہے کہ پانچ رکنی بنچ کو فیصلہ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ اگر ھم اپنا فیصلہ تبدیل کریں تو لارجر بنچ کا فیصلہ بھی تبدیل ہوگا، آپ کے اضافی نکات دو ارکان سے متعلق ہیں کہ انہوں نے کیس نہیں سنا تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر ہم بحث سنتے ہیں تو پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں تو غیر مؤثر ہو جائیں گی، وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہم تو یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ بیس اپریل کو پانامہ کیس فیصلہ عبوری تھا یا اس کو بھی حتمی شکل دی گئی تھی_ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ اس کو حتمی فیصلہ کہتے ہیں مگر اس میں دو ججوں کے فیصلے کے خلاف آپ نے نظرثانی دائر نہیں کی تھی_
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ لارجر بنچ کا فیصلہ تبدیل ہونا ضروری ہے۔ اگر پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ نہ دیا ہوتا تو تو یہ درخواست نہ کرتے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے دو الگ درخواستیں دائر کی ہیں، لارجر بنچ نے فیصلہ کیا تو یہ درخواستیں جو تین رکنی بنچ کے خلاف ہیں غیر موثر ہو جائیں گی۔ نظر ثانی درخواستیں اپ نے بنائی ہیں ھم نے نہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ فیصلہ تو تین رکنی بنچ نے ہی کیا تھا تب ہی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ بنا، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ یہ اکیڈمک بحث ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ بنیادی سوال ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے احتساب عدالت میں معاملہ بھیجا ہے اور فیصلے میں وہ دو جج بھی شامل تھے جنہوں نے کیس سنا ہی نہیں تھا، ہمیں شفاف ٹرائل کے بنیادی حق سے محروم کیا گیا، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ باقی دو ججوں سے متعلق تو پہلے ہی نظرثانی اپیل میں اعتراض موجود ہے_
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ اگر فیصلہ پانچ رکنی بنچ نے کیا ہے تو پھر نظرثانی بھی پانچ ہی جج سنیں گے کیونکہ انہوں نے فیصلے پر دستخط کئے ہیں، اگر دو جج یہ کہتے کہ انہوں نے کیس سنا ہی نہیں تو پھر الگ بات تھی لیکن جب دستخط کئے ہیں تو نظرثانی بھی سننا ہوں گی_ جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل نے اپیلیں پانچ رکنی بنچ کے سامنے لگانے کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجنے کا حکم لکھوایا_