آزادی صحافت مگر قانون کے تحت
Reading Time: 6 minutesاسلام آباد (عمر چیمہ)حکومت اس وقت حملے کی زد میں ہے اور اپنے اندر سے ہے۔ سرکاری بینچوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کا ایک گروپ اچانک روٹھ گیا ہے۔ وہ ناراضی کی وجہ سے سخت طیش میں ہیں۔ عجیب و غریب سوالات اور غیر ضروری وضاحتیں ان کی فرسٹریشن کی وجہ ہیں۔ ان میں سے ایک کو دل کا دورہ بھی پڑا ہے۔ دیگر شدید پریشانی سے گزر رہے ہیں۔
اس بحران کا سبب ایک جعلی خط کا افشا ہے۔ یہ میڈیا کے ہاتھوں میں پہنچا جس نے اس کی تصدیق کرنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی۔ مبینہ طور پر ڈی جی انٹیلی جنس بیور کی جانب سے تحریر کردہ خط سے ناموں کی ایک فہرست بھی منسلک تھی جس میں کم از کم 37 ارکان پارلیمنٹ بشمول وفاقی وزرا شامل تھے، جن کا ’’کالعدم دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے تعلق تھا، مزید براں وہ غیرقانونی اور بدنامی کا باعث بننے والی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔۔۔۔‘‘ اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف نے دو ہفتے قبل یہ خبر بریک کی تھی۔ خط اور ناموںکی فہرست دکھائی گئی تھی۔
کیا جو دستاویز آئی بی سے منسوب کی جارہی تھی اس کی تصدیق کے لئے آئی بی سے رابطہ کیا گیا تھا؟۔ نہیں۔ کسی پر الزام لگانا لیکن اسے وضاحت کا حق نہ دینا کیا پریس کی آزادی ہے؟ بالکل نہیں۔ من گھڑت اطلاعات نشر کرنے سے ان لوگوں کی زندگی اور ساکھ خطرے میں پڑ جاتی ہے جن کا مبینہ طور پر تعلق دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ایجنسی کا کوئی قصور نہ ہونے کے باوجود اسے بدنامی اٹھانی پڑی۔ ’’انکشاف‘‘ نے ان ارکان پارلیمنٹ کو بدحواس کر دیا جن پر الزام لگایا گیا تھا اور انہوں نے سوچا کہ حکومت نے انہیں سبق سکھانے کے لئے آئی بی کی یہ ذمہ داری لگائی تھی۔
اگر یہ خبر حقائق پر مبنی ہوتی تو بہت بڑی خبر ہوتی۔ صحافت طاقتور کا احتساب کرنے کا نام ہے۔ اس کیس میں جو ہوا اس میں الزام لگانے والوں اور ملزمان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ فہرست میں موجود ایک وزیر نے ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کا کال کی۔ ’’تو آخرکار آپ نے ہمیں دہشت گردوں کا اتحادی بنا دیا۔‘‘ انہوں نے انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ سے کہا جو انتہائی شریف آدمی اور پیشہ وارانہ طور پر ایماندار افسر ہیں۔ آفتاب نے انہیں مطمئن کرنے کے لئے تفصیل سے وضاحت کی اور واضح طور پر ایسے کسی خط کی موجودگی سے انکار کیا۔ لیکن وہ وزیر واحد متاثرہ رکن پارلیمنٹ نہیں تھے۔ آخر کار آئی بی نے سرکاری طور پر تردید جاری کر کے اس بات کو عام کر دیا۔
یہ بالکل درست کام کیا گیا کیونکہ یہ معمول کے حالات نہیں تھے۔ آئی بی تمام اطراف سے حملے کی زد میں ہے۔ عمران خان، اس آفتاب سلطان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، جو صلاحیت اوراہلیت کے لحاظ سے آئی بی کو آئی ایس آئی کے برابر لے آیا۔ انہوں نے محض بے بنیاد الزامات پر آئی بی کے سربراہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ قانونی محاذ پر آئی بی کے ایک نچلے درجے کے ملازم نے آئی بی کی اعلی انتظامیہ پر غیرملکی ایجنڈے کی تکمیل کے الزام پر مبنی درخواست دائر کردی۔ اینکرز کا ایک جتھہ سویلین انٹیلی جنس ادارے پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ تنقید اورتفتیش پر نہیں، بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر حملہ آور ہونا جرم ہے۔ اس جعلی خط کا نشر ہونا محض ایک مثال ہے۔
نچلے درجے کے ملازم اور اے آر وائی نے آئی بی کے خلاف دو مختلف مقدمات کے لئے ایک ہی وکیل کیا ہے تو پی ٹی آئی نے غیرمشروط حمایت کی پیش کش کی ہے۔ دنیا بھی کتنی چھوٹی ہے۔ جب ایجنسی سے خط کو جعلی قرار دے کر وضاحت جاری کی تو ارشد نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوںنے اصرار کیا کہ خط اصلی ہے اور وہ اپنی اسٹوری پر قائم ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے دعوے کی توثیق کو کس طرح جج کیا جائے۔ آخرکار آئی بی نے الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹر پیمرا کے پاس ایک شکایت درج کرائی۔ پیمرا کے کاؤنسل آف کمپلینٹ کے سامنے اپنے دفاع میں کوئی شہادت پیش کرنے کے بجائے اے آر وائی نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کردیں کہ سی او سی کی کارروائی رکوائی جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 31 اکتوبر کیس کی تک حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سی او سی کیس کی اس وقت تک سماعت نہیں کر سکتا جب تک کہ اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلہ نہ کرے۔ اس وقت پیمرا کے 600 مقدمات ہائی کورٹس اور 29 سپریم کورٹ میں زیر التوا پڑے ہوئے ہیں۔ شوکاز نوٹس تک پر اسٹے جاری کیا جارہا ہے۔ کیا اس صورتحال میں سی او سی، اے آر وائی بمقابلہ آئی بی کیس میں جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کے قابل ہوگا؟ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دریں اثنا آئی بی نے ایک اور قانونی چینل استعمال کیا ہے۔ ایجنسی سے ایک ایف آئی آر یہ تفتیش کرانے کے لئے درج کرائی ہے کہ کس نے جعلی خط میڈیا کو جاری کیا۔ اس سے صحافی برادری میں بدمزگی پیدا ہوئی ہے۔ کئی نے اس کی تشریح اس طور کی ہے کہ یہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کرنے کی کوشش کی ہے۔
دیگر اس کو پریس کی آزادی پر حملہ کہتے ہیں۔ اسلام آباد / راولپنڈی یونین آف جرنلسٹس نے ایک حقائق تلاش کرنے والی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ میڈیا میں جاری بحث گمراہ کن حقائق کی بنیاد پر دکھائی دیتی ہے۔ اس مسئلے پر کوئی موقف اختیار کرنے سے قبل حقیقت کا جاننا اہم ہے۔ دو بنیادی نکتے ہیں جنہوں نے میڈیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ پہلی ارشد کی سی او سی کے سامنے حاضری جہاں آئی بی کے نمائندے نے مبینہ طور پر دھمکی دی کہ وہ انہیں عدالت میں گھسیٹے گا اور دوسرا ایف آئی آر سے متعلق ہے۔ آئی بی کے افسر کی جانب سے لفظوں کے انتخاب پر کسی کو بھی لازما اعتراض کرنا چاہیے۔ وہ بہتر انداز میں اپنے ادارے کے عدالتوں کے ذریعے قانونی اقدامات کرنے کے جائز حق کے بارے میں بات کر سکتے تھے۔ تاہم یہ سی او سی کے اجلاس میں ہونے والا واحد تبادلہ خیال نہیں تھا۔
صحافیوں کی حقائق جاننے والی کمیٹی کو چاہیے کہ وہ پیمرا سے درخواست کرے کہ ملاقات کے نکات اسے دیے جائیں تاکہ معلوم ہوا کہ کس نے کیا کہا اور وہ کس طرح عدالت میں گھسیٹنے کے نکتے تک پہنچے۔ بطور صحافی ہمارا فرض ہے کہ دونوں جانب کی بات بائیں اور اس معاملے میں دونوں افراد کا موقف بتائیں۔ خط کے دفاع کے سوال پر اس کی صداقت ثابت کرنے کے لئے کوئی شہادت فراہم نہیں کی گئی۔ اس کے بجائے آئی بی کے ماضی کے ریکارڈ کہ ایجنسی گندی حرکتیں کرتی رہی ہے کو خط میں بطور شہادت استعمال کیا گیا ہے، یہ بتانے کے لئے کہ خط حقیقی ہوسکتا ہے۔ اگر ماضی کے ریکارڈ کو بطور شہادت اختیار کیا جائے تو آئی بی کا نمائندہ ملزم اینکر کی ان خبروں کو پیش کر سکتا تھا جو جعلی ثابت ہوئی تھیں۔ کیا اسے یہ ثابت کرنے کے لئے قابل قبول دلیل سمجھا جائے گا کہ خط جعلی تھا؟ اس کے بجائے انہوں نے خط کے ریفرنس نمبر پر توجہ مرکوز کی، جو فونٹ استعمال ہوا اور جن باتوں کا اظہار کیا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جعلی تھا۔
یہ خط اس نکتے کو مزید ثابت کرنے کے لئے فارنسک جائزے کے لئے بھی بھیجا گیا ہے۔ جہاں تک ایف آئی آر کا تعلق ہے ، ارشد کا نام کہیں نہیں ہے۔ یہ کسی نامعلوم شخص کے خلاف ہے جس نے اسے لیک کیا ہے۔ صحافیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں لازمی طور پر سچ کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے اور پریس کی آزادی کو لاحق خطرات کے خلاف اس سے بہتر یقین دہانی کوئی نہیں ہوسکتی کہ سچ کو غالب آنے دیا جائے۔ خبر کے کاروبار میں ہم سب غلطی کرتےہیں اور جب ہم اعتراف نہیں کرتے تو نقصان ہوتا ہے۔ جب ہم اعتراف نہیں کرتے تو ہم نہیں سیکھتے ۔ سب سے پہلے میں اپنے اعتراف سے آغاز کرتا ہوں۔
میں نے 2008 میں افغانستان میں پاکستان کے سفیر طارق عزیز الدین کے اغوا کے برے میں کچھ حقائق غلط رپورٹ کیے تھے اور اگلے روز ہی تحریری طور پر معذرت کی تھی۔ میرے ساتھی احمد نورانی نے حال ہی میں یہ کام اس وقت کیا جب جے آئی ٹی کے بارے میں ان کی خبر غلط ثابت ہوئی۔ تصور کریں کہ ارشد اپنے اندازے کی غلطی کو تسلیم کرتے اور اس بات سے اتفاق کرتے کہ انہیں اسے عام کرنے سے قبل اس کی تصدیق کرنا چاہیے تھی تو اس اعتراف کی تحسین ان کے متاثرین بھی کرتے۔ کوئی بھی ان سے یہ نہ کہتا کہ وہ استعفی دیں، جیسے کہ ہم ہر ایک سے مطالبہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔
ہم یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو اخلاقی بنیادوں پر تبلیغ کریں اور بتائیں کہ کب استعفی دینا چاہیےلیکن ساکھ کے بحران کی صورت میں ہم اس بنیاد سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اگر صرف معذرت پیش کرنے سے ہی ہماری انا مجروح ہوتی ہے تو پہلےسے حقائق کی تصدیق کرلینا اس سے بچنے کا بہترین راستہ ہے۔ اگر احتساب کی کمی سے سیاسی اور جمہوری نظام کمزور ہوتا ہے تو ہم اس کے بغیر پریس کی آزادی کو کس طرح یقینی بناسکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ