پاکستان

احتساب عدالت میں کیا ہوا

اکتوبر 13, 2017 3 min

احتساب عدالت میں کیا ہوا

Reading Time: 3 minutes

اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون جوڈیشل کمپلیکس میں واقع احتساب عدالت میں آج تیرہ اکتوبر جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر پر فرد جرم عائد کی جانی تھی۔ ہر شخص اس بات کا منتظر تھا کہ آج عدالت نے کیا حکم دینا ہے کیونکہ سابق وزیراعظم ملک واپس نہیں آئے تھے اور ان کو گزشتہ سماعت پر حاضری سے استثنا کے ساتھ یہ ہدایت کی گئی تھی کہ آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں تاکہ فرد جرم عائد کی جاسکے۔
احتساب عدالت میں ہرنگاہ دروازے پر لگی تھی جبکہ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے۔ اسلام آباد پولیس نے خاردار تاریں لگانے کے ساتھ ایف سی کے اہلکاروں کو بھی طلب کیا تھا جبکہ جوڈیشل کمپلیکس کے مرکزی دروازے پر انسداد دہشت گردی پولیس کے کمانڈوز بھی تعینات کیے گئے تھے۔ ساڑھے آٹھ بجے پولیس ہائی الرٹ ہوگئی کیونکہ وائرلیس بج اٹھے تھے کہ مریم نواز مارگلہ روڈ پر واقع گھر سے روانہ ہوگئی ہیں۔ احتساب عدالت میں موجود افراد اور سرکاری عملہ ’مہمانوں‘ کی آمد کا منتظر تھاکہ دھڑام کی آواز سے دروازہ کھلا، ایک شور بلند ہوا، اورمریم نواز ،کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ساتھ وکیلوں کی ایک بڑی تعداد کمرہ عدالت میں داخل ہوگئی۔ صحافی مطیع اللہ جان نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ وہ کمرہ عدالت میںموجود تھے جب وکیل آئے اور انہوں نے جج کو بلانے پر اصرار کیا، جج محمد بشیر کے آنے پر ایک وکیل جس کے سرسے خون بہہ رہا تھا نے ایک اور خاتون وکیل کے ہمراہ اونچی آواز میں عدالت کے باہر پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں بتایا۔ اس دوران کوئی نعرہ بازی عدالت کے اندر نہیں ہوئی۔ جج نے بات سنی اور مقدمے کی سماعت ملتوی کردی۔
کمرہ عدالت میں پیش ہونے والے وکیلوں نے کہاکہ ان کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے ، جج محمد بشیر نے اپنے چیمبر میں جا کر اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو اس واقعے کی تحقیقات کا حکم بھی دیا۔ ایک اور عدالتی رپورٹر کے مطابق عدالت میں رکھی چند کرسیوں پر پہلے ہی سے سادہ کپڑوں میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے جب کیپٹن صفدر پہنچے تو انہوں نے اپنے لیے کرسی خالی کرانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک شخص سے پوچھاکہ آپ کا تعلق کس ادارے سے ہے؟ ملٹری انٹیلی جنس سے ہیں یا آئی ایس آئی سے ہیں؟۔ رپورٹر کے مطابق اس شخص نے اپنا تعارف بطور اسپیشل برانچ کے اہلکار کے کرایا اور نشست خالی کردی۔
عدالت کے باہرٹی وی چینلز کی اسکرین کا پیٹ بھرنے کیلئے موبائل فون کے ذریعے فوٹیج بنانے والے رپورٹر وں میں سے ایک نے بتایا کہ جب وکلاءکا ایک ریلا آیا اور جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پولیس نے روک لیا۔ اس دوران جوڈیشل کمپلیکس کے باہر اسلام آباد انتظامیہ کے حکام کے علاوہ ن لیگ کے رہنما اور داخلہ امور کے وزیر مملکت طلال چودھری بھی موجود تھے ، مگر خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس دوران ایک وکیل نیچے گر گیا اور دھکم پیل میں ایک خاتون وکیل چیختی چلاتی سنی گئی۔ اسی وقت ایک وکیل نے پولیس افسر کو تھپڑ رسید کر دیا۔ رپورٹر کے مطابق دھکم پیل میں وکیلوں نے غصے میں آکر پولیس اہلکاروں سے ڈنڈے کھینچنے کی کوشش کی تو ایک وکیل کا سر پھٹ گیا۔ وکیلوں نے دو پولیس اہلکاروں کی شرٹس پھاڑیں اور زبردستی جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوگئے۔
عدالت کے باہر موجود وکیلوں کا موقف تھاکہ ان کے پاس اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم نامہ ہے جس میں کہا گیاہے کہ کسی بھی وکیل کو احتساب عدالت میں داخل ہونے سے نہیں روکاجاسکتا۔ احتساب عدالت کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد مذکورہ وکیل ہائی کورٹ چلے گئے اور پولیس افسران کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کردی جس پر عدالت نے نامزد کیے گئے پولیس حکام کو نوٹس جاری کر دیے۔
عدالت میں موجود رپورٹرز کا کہناہے کہ یہ سب بظاہر ن لیگ کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا کیونکہ جھگڑا کرنے والے تمام وکیل ن لیگ کے لائرز فورم کے عہدیدار تھے۔ تاہم بعض صحافیوں نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے وکیلوں کو زبردستی روکنے کی کوشش کرکے ڈرامے میں رنگ بھرے اور اشتعال پھیلایا۔
آج کی احتساب عدالت کی سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی ہونے کا فائدہ ن لیگ کے سربراہ کو ہوا ہے مگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر حکومت اور ن لیگ کو شدید تنقید کا بھی سامناہے۔ لوگوں کاماننا ہے کہ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ نوازشریف کی غیر حاضری میں ان کے وارنٹ نہ جاری کیے جاسکیں اور اس دوران سپریم کورٹ سے نیب ریفرنسز کے خلاف رجوع کرنے کی مہلت مل سکے۔
احتساب عدالت میں اب نوازشریف پر فرد جرم عائد کرنے کی آئندہ تاریخ انیس نومبر مقرر کی گئی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے