لاپتہ کے مقدمے میں صرف باتیں
Reading Time: 4 minutesسپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیس میں حراستی مراکز میں رکھے افراد سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ حراستی مراکز میں کون کون گرفتار ہے الزام کیا ہے تفصیلی رپورٹ چاہیے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سر براہی میں دو رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجازالااحسن نے کہا کہ بغیر ایف آئی آر لوگوں کو کیوں زیرحراست رکھا گیا ہے، وضاحت دی جائے کہ سالوں سے بغیر مقدمات لوگ کیوں جیلوں میں ہیں، درخواست گزار آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ لوگوں کو آج بھی جبری طور پر اٹھایا جا رہا ہے،137 افراد سے شروع ہونے والا لاپتہ افراد کا معاملہ 4000 تک پہنچ گیا ہے، لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ مارچ 2011 سے آج تک 4229 مقدمات کمیشن کے پاس آئے، لاپتہ افراد کمیشن نے 2939 مقدمات نمٹائے، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ حراستی مراکز میں قید افراد کا ٹرائل کیوں نہیں ہو رہا، کسی نے جرم کیا ہے تو ٹرائل کے بعد اس کو سزا دیں، ملک کی اعلی ترین عدلیہ کے پاس لاپتہ افراد کے لواحقین کو دینے کے لیے کوئی جواب نہیں، معاملے میں اعلی ترین عدالت کو بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا جا رہا، سالوں سے لوگ پیاروں کی تلاش کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، عدالت نے سماعت تیرہ نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے حراستی مراکز میں قید افراد کی ایک ہفتے میں ان کے رشتے داروں سے ملاقات کرانے کی ہدایت کی اور قید افراد سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں۔
ایک الگ مقدمے میں سپریم کورٹ نے سابق ڈی جی نیب عالیہ رشید کی پنشن اور مراعات ادائیگی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سابق ڈی جی نیب عالیہ رشید کی درخواست پر سماعت کی ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ عالیہ رشید کی فیصلہ کے خلاف نظر ثانی خارج ہو چکی ہے ،ایک نظر ثانی درخواست خآرج ہونے کے بعد دوسری نظر ثانی دائر نہیں کی جا سکتی ،عالیہ رشید نے موقف اختیار کیا کہ انہیں سات ماہ سے پنشن ادا نہیں دی جا رہی،استدعا ہے کہ پنشن اور دیگع مراعات کی ادائیگی کی جائے،عدالتی بینچ نے عالیہ رشید کی درخواست کے سماعت کے لیے لگانے کا حکم دیکر سماعت مزید کاروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
_______
سپریم کورٹ نے شکر پڑیاں نیشنل پارک میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سابق سیکرٹری داخلہ روئیداد خان کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ۔جسٹس شیخ عظمت سعید کی سر براہی میں دو رکنی بینچ نے روئیداد خان کی درخواست پر سماعت کی،سابق سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ شکر پڑیاں میں گن گلب، گراونڈ اور ہوٹل بنا دیے گئے ہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ کسی کو شکر پڑیاں کو ختم کرنے نہیں دینگے، نیشنل پارک اور شکر پڑیاں کے تحفظ کے لیے قانون سے بڑھ کر کریں گے، قومی اثاثہ کے تحفظ کے لیے قانون سے کم کچھ نہیں ہو گا،مارگلہ پہاریوں کا مقدمہ دو نومبر کو سماعت کے لیے مقرر ہے ،اس درخواست کو بھی اس مقدمہ کے ساتھ سنا جائے گا ،عدالت نے درخواست کو سماعت کے لیے لگانے کا حکم دیکر مزید کاروائی دو نومبر تک ملتوی کردی۔
_______
سپریم کورٹ میں ڈی جی نیب لاہور کی مبینہ جعلی ڈگری پر کیلیبری فونٹ کے استعمال کا انکشاف،عدالت عظمی نے چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کو نوٹس جاری کر دیا،جواب بھی طلب کر لیا ۔ جسٹس شیخ عطمت سعید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نیب میں غیرقانونی بھرتیوں سے متعلق عمل درآمد کیس کی سماعت کی ،درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کی ڈگری کیلبری فونٹ میں لکھی گئی، کیلبری سیاہی 2007 میں آئی، ڈگری 2002 کی ہے، ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے عدالت کو بتایا کہ گریڈ اٹھارہ تک کے 52 افسران کی تعیناتیوں کا جائزہ لیا جا چکا، مزید 40 افسران کی تعیناتی کا جائزہ لینا باقی ہے، سیکرٹری اسٹبلشمنٹ طاہر شہباز کی تبدیلی سے کام رکا،عدالت نے ڈگری کے معاملے پر چیئرمین نیب سے جواب طلب کر لیا، ڈی جی نیب لاہور میجر سلیم شہزاد کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا، عدالت نے غیر قانونی بھرتیوں پر کمیٹی کو دو ماہ میں کام مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
________
ڈاکٹر عاصم نے نام ای سی ایل سے نکلوانے کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔
ڈاکٹر عاصم حسین کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ پہلے بھی عدالت کے حکم پر چیک اپ کیلئے نام ای سی ایل سے نکالا گیا،عدالتی حکم کے مطابق ایک ماہ کے اندر وطن واپس آ گیا تھا،نوُ نومبر کو دوبارہ چیک اپ کیلئے ولنگٹن جانا ہے،نام دوبارہ ای سی ایل میں شامل ہونے کا سن کر دھچکا لگا،نام ای سی ایل سے نکلانے کے لیے وزارت داخلہ کو دو بار درخواست دی لیکن جواب نہیں ملا، وازشریف اور اسحاق ڈار کیخلاف زیادہ سنگین نوعیت کے مقدمات چل رہے ہیں،نوازشریف اور اسحاق ڈار کے نام ای سی ایل میں شامل نہیں کیے گئے، پیپلزپارٹی کا عہدیدار ہونے کی سزا دی جا رہی ہے، درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ بروقت علاج نہ ہونے سے مفلوج ہونے کا خدشہ ہے ،عدالت نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔
_________
پیپلزپارٹی نے انتخابی اصلاحات قانون کے خلاف درخواست پر رجسٹرار کے اعتراضات کو چیلنج کر دیا ۔۔
رجسٹرار آفس سپریم کورٹ کے اعتراضات کے خلاف دائر اپیل میں کہا گیا ہے کہ انتخابی اصلاحات قانون کے خلاف درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات بلاجواز ہے ،رجسٹرار کو آرٹیکل 184/3 کے دائرہ اختیار کا علم ہی نہیں،ناہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کا قانون آئین کے منافی ہے،ن لیگ کی حکومت نااہل شخص کی سربراہی میں چل رہی ہے، پیپلزپارٹی نے اپیل میں عدالت سے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کالعدم قرار دیا جائے اور الیکشن قانون کے خلاف درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔