وزیراعظم عمران خان
Reading Time: 4 minutesمجھے عمران خان کے وزیراعظم بننے کی خبر چند سال پہلے ایک ساتویں جماعت کے بچے سے ملی۔ بچے کو سیاست سے کبھی کوئی دلچسپی نہ رہی تھی بلکہ اگر باپ ٹی وی پر کوئی سیاسی شو دیکھنے کی کوشش کرتا تو فوراً ریموٹ چھین کر چینل بدل دیتا۔
اسی بچے نے ایک دن اچانک پوچھا کہ کیا ہمارے اگلے وزیراعظم عمران خان ہوں گے؟ یہ گذشتہ الیکشن سے کافی پہلے کی بات ہے۔ حالات یہ تھے کہ عمران خان ہر روز کسی چینل پر کسی پروگرام یا دوسرے مہمانوں کے ساتھ مدعو ہوتے تھے۔
ایک دن خود ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ وہ شروع ہوئے ‘حامد جس دن میں وزیراعظم ہوں گا۔۔’ پھر خود ہی رکے اور ہنسے، پینل کے دوسرے ارکان بھی حوصلہ پکڑ کر ہنسے، حامد بھی مسکرا دیے۔ عمران خان نے کہا ٹھیک ہے ہنس لو لیکن جس دن میں وزیراعظم بنوں گا تو۔۔۔
میں نے بچے سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ ہے کہ عمران خان وزیراعظم بنیں گے۔ اس نے کہا کہ کلاس میں ایک لڑکا کہہ رہا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ مہنگے پرائیویٹ سکول کے بچوں کو بھی سیاست میں ایسی ہی دلچسپی ہے جیسی کبھی ٹاٹ سکولوں والوں کو ہوا کرتی تھی۔
کراچی میں عمران خان کے پہلے ساتھیوں میں عارف علوی ہیں۔ میں آپ کو حلفیہ بتا سکتا ہوں کہ دنیا میں ان سے اچھا دانتوں کا ڈاکٹر نہیں ہے۔ مجھے سیاست، معیشت، تاریخ اور فلسفے کی زیادہ سمجھ نہیں ہے لیکن دانتوں کے علاج کا بہت تجربہ ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے راقم کے ایسے ایسے دانتوں کو شہادت سے بچایا جن پر لندن اور ہانگ کانگ کے ڈاکٹر فاتحہ پڑھ چکے تھے۔
ڈاکٹر صاحب پہلے دانتوں پر لیکچر دیتے تھے۔ کہتے تھے دانت انسان کے جسم کی سب سے مضبوط ہڈی ہے لیکن آپ نے دیکھیں ان کا کیا حشر کیا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی اور عمران خان کی سیاست پر بھی لیکچر دے دیا کرتے تھے۔ اس عمل کے دوران انھوں نے دندان سازوں والی ڈرل میرے منہ میں ڈال رکھی ہوتی تھی۔ کوئی چریا ہی ہوگا جو اس صورتحال میں سیاسی اختلاف کی جرات کرے گا۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے دانتوں کی ڈاکٹری چھوڑ کر کل وقتی سیاست شروع کر دی۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس قوم کے لیے انھوں نے میرے دانتوں کی قربانی دے دی۔ اب انھیں روز ٹی وی پر دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہوں لیکن دانتوں کے پرانے درد بھی تازہ ہونے لگتے ہیں۔
پھر گذشتہ الیکشن سے پہلے رُت ایسی بدلی کہ لاہور کے مشہور جلسے کے بعد ہر کوئی پی ٹی آئی میں شامل ہونے لگا۔ جیسا کہ پاکستانی کرکٹ کے تاریخ دان اور سینیئر تجزیہ نگار عثمان سمیع الدین نے اپنے ایک شہرۂ آفاق مضمون میں لکھا ہے کہ قوم کو کچھ حال سا چڑھ گیا۔ وکٹوں پر وکٹیں گرنے لگیں۔ ایسے لگا کہ ملک میں سیاست نہیں ہو رہی گلی کی کرکٹ ہو رہی ہے جس میں کوئی سکور نہیں کر پا رہا صرف کِلّیاں اُڑ رہی ہیں۔
پہلے پی ٹی آئی صرف لونڈوں لپاڑوں کی پارٹی سمجھی جاتی تھی پھر ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ کراچی کے پہلے بڑے جلسے میں جاوید ہاشمی باغی، باغی کے نعرے لگوا رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی جو کبھی ہلیری کلنٹن کے ماتھے سے ماتھا ٹکرا کر قوم کو پیغام دے چکے تھے، چوہدری سرور جو سکاٹ لینڈ کو فتح کر چکے تھے لاہور کے گورنر ہاؤس سے ہوتے ہوئے عمران خان کے در پر جا پہنچے۔ جہانگیر ترین جن کی دریادلی دیکھ کر دل سے آہ نکلتی ہے کہ کاش میں بھی آپ کا مالی ہوتا۔ فردوس عاشق اعوان، بابر اعوان، کونسا چیمہ، چٹھہ، چوہدری تھا جو پی ٹی آئی میں نہیں آیا۔
پھر آبائی شہر اوکاڑہ سے خبر آئی کہ اشرف سوہنا بھی پی ٹی آئی میں آ گئے۔ جب ہم بچے تھے تو پہلا سیاستدان اور پہلا جیالا اور پہلا بندہ جس کا نام سوہنا تھا وہ اشرف صاحب ہی تھے۔ اس کے بعد سے مجھے لگنے لگا ہے کہ اصل میں پورا ملک ہی پی ٹی آئی میں شامل ہو چکا ہے۔ جو کچھ لوگ بچے ہیں وہ صرف ہمارا واہمہ ہیں یا صرف اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب عمران خان کے پاس کچھ لمحوں کی فرصت ہو اور وہ ان کے ساتھ تصویر کھنچوا سکیں۔
کبھی کبھی دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اگر واقعی پورا ملک پی ٹی آئی میں شامل ہے تو تبدیلی کا سفر آگے کیسے چلے گا؟
رہی بات وزیراعظم بننے کی تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ گذشتہ چار برس سے پاکستان کا اصلی وزیراعظم کون ہے؟ شیروانی کوئی بھی پہن لے، وزیراعظم ہاؤس میں کوئی آئے، کوئی جائے کیا طاقت کا اصل مرکز بنی گالا نہیں ہے؟ کیا سڑکوں پر، عدالتوں میں، میڈیا پر، اور ہمارے دلوں میں عمران خان کا راج نہیں ہے؟
اردو کے بزرگ ادیب بتایا کرتے تھے کہ شہر پر ظاہری حکمران کوئی بھی ہو اصل انتظام کسی ولی کسی بابے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کیا عمران خان ان سب بابوں کے بابے نہیں ہیں؟
اب تو میں کسی پرفضا مقام پر عمران خان کو ریلیکس کرتے ہوئے ان کی تصویر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ سے تقریباً ریٹائر ہونے کو ہیں۔ ایسی تسلی کے ساتھ کسی پہاڑی پر باغ میں بیٹھ کر کافی میں اتنے اطمینان سے چینی کون ڈال سکتا ہے۔ وہی جو سب کھا ہنڈا چکا ہو۔
کوئی دن جاتا ہے کہ ہم ٹی وی پر دیکھیں گے کہ عمران خان کہہ رہے ہوں گے، حامد جب میں وزیراعظم ہوا کرتا تھا۔
بشکریہ بی بی سی اردو