چودھری اور نازک دور
Reading Time: 3 minutesپاکستان کو بنے ستر سال گزر گئے، ہر آنے والی حکومت نے ملک کو خطرناک چیلنجز درپیش ہونے اور نازک دور سے گزرنے کا مژدہ سنایا، ہر نئی حکومت کا تھوڑا عرصہ گزرتا ہے تو حالات بہتر ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا جاتا ہے،لیکن اس کے بعد حکومت کا نازک دور ایک بار پھر شروع ہوتا ہے، نہ تو آج تک پاکستان کا نازک دور ختم ہوا ہے اور نہ ہی پاکستان کو حکمرانوں کے مطابق استحکام ملا، پھر بھی پاکستان ستر سال سے اللہ کا شکر ہے قائم ہے گو کہ ہم نے ایک حصہ گنوا دیا ،آج پھر ایک نازک دور سے گزرنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس دفعہ صورتحال ذرا مختلف ہے، اس بار نازک دور کی باتیں سیاست میں موجود ایک ایسا چوہدری کر رہا ہے جو چار سال تک کابینہ میں شامل رہا اور نہ صرف سیکورٹی صورتحال کو بہتر بنانے بلکہ ملک کی مجموعی صورتحال میں بہتری کا دعویدار بھی رہا،اٹھائیس جولائی کے فیصلے سے دودن قبل سیاست کے چوہدری صاحب نے سب کو فیصلے پر تحمل کا ایک لیکچر بذریعہ میڈیا دیا،پھر اپنی ہی پارٹی کی حکومت میں شامل ہونے سے بھی انکار کر دیا اور پارٹی کے مشکل حالات میں دفاع کے وقت بھی سین سے اکثر غائب نظر آیا،وہ لیڈر جس کی کابینہ کا چوہدری صاحب حصہ تھے جب وہ سڑکوں پر تھا تو بھی چوہدری سیاست غائب تھے،اب وہی سیاست کے چوہدری ایک بار پھر بول پڑے ہیں، کہتے ہیں کہ ملک کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے کچھ سامنے ہیں،کچھ سامنے نہیں اور کچھ خطرات کا ہمیں وہم گمان بھی نہیں پاکستان کے حالات انیس سو ستر کے حالات سے زیادہ مشکل ہیں،اب کس کو سچ سمجھا جائے جو وہ وفاقی کابینہ کا حصہ ہوتے کہتے تھے یا جو وہ اب کہہ رہے ہیں،خیر سیاست کے چوہدری ہیں اور پرانے سیاستدان انکی بات کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا،لیکن کیا انہوں نے ان خطرات کو اور ان سے جڑے مسائل کو اپنی سیاسی قیادت کے سامنے رکھا کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے،چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ پارٹی میں اختلاف رائے ہے اور یہ جمہوریت کا حسن ہے اس میں بھی شک نہیں،لیکن چوہدری صاحب کیوں وہ نام لینے سے گریزاں ہیں جو اداروں کے درمیان تصادم چاہتے ہیں،سیاست کے چوہدری اور پرانے سیاستدان ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرنی چاہئے لیکن دوسری طرف اداروں اور اپنی پارٹی قیادت کے درمیان اعتماد کی بحالی کےلئے بظاہر کچھ کرتے بھی نظر نہیں آرہے کہتے ہیں ہمیں ذاتیات سے نکلنا ہو گا تو کیا چوہدری صاحب بتائیں گے کی مسلم لیگ ن کی سیاست کس شخصیت کے گرد گھومتی ہے،اگر اس ذات سے مسلم لیگ نکل جائے تو کیا مسلم لیگ ن کا نازک دور نہیں شروع ہو گا،خیر یہ باتیں تو زیادہ ہی سیاسی ہو گئیں بات ہو رہی تھی نازک دور کی۔تو ملک کا نازک دور ایک بار پھر شروع ہو چکا ہے جہاں پر معیشت کے حوالے سے بھی ہر ایک اپنا تبصرہ کئے جا رہا ہے اور سیکیورٹی کے حوالے سے بھی،جہاں آئے روز حکومت کے خاتمے،نئے الیکشن،قومی حکومت سمیت کئی موضوعات زیر بحث ہیں،لیکن کیا ہمیں واقعی اس نازک دور کا ادراک ہے جہاں سے پاکستان گزر رہا ہے،جہاں ہمارے ہمسائے ہمارے خلاف دشمنی میں بہت آگے جا رہے ہیں،جہاں کئی ایسی تنظیمیں جو دیگر ممالک میں تھیں وہاں سے ہمارے ہمسایہ ممالک میں جمع ہو رہی ہیں،جہاں امریکہ کی نئی پالیسی کا مقصد بھی پاکستان کی مانیٹرنگ ہے،کیا ہمیں ادراک ہے جو کچھ ہم سیاست کے نام پر کر رہے ہیں جس طرح ہم اپنے ہی اداروں کو کمزور کرنے کے درپہ ہیں اسکے کیا اثرات ہو سکتے ہیں،یہ وہ خطرات ہیں یہ وہ چیلنجز ہیں جن پر سیاست کے چوہدری بات کرنا چاہتے ہیں لیکن انکی بات شاید انکی قیادت اس طرح نہیں سن رہی جس طرح وہ سنانا چاہتے ہیں۔سو باتوں کی ایک بات ہے سیاست کے چوہدری کی نازک دور کی بات میں وزن ضرور ہے جس کا ادراک ہم سب کو ہونا چاہئے اور ذاتیات سے نکل کر ہمیں اجتماعی طور پر اس ملک کے متعلق سوچنا چاہئے اور ایسی متفقہ پالیسی اپنانی چاہئے کہ اسکے بعد ملک کو کسی بھی مزید نازک دور کا سامنا نہ ہو