سلامتی کو شدید خطرات لاحق
Reading Time: 5 minutesچودھری نثار علی خان کی طرز سیاست کے بارے میں میرے بھی کئی تحفظات ہیں۔ ان سب کے باوجود میں انہیں گھر کا وہ بھیدی قرار دینے کو تیار نہیں ہوں جو بالآخر نواز شریف کی ”لنکا“ ڈھا کر ان کے دشمنوں کے دلوں میں ٹھنڈ ڈال دے گا۔ پیر کے روز انہوں نے اپنے فقرے کی وجہ سے البتہ مجھے ایک اور حوالے سے بہت پریشان کردیا ہے۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ یہ فقرہ اس روز ادا ہوا جب وزیر اعظم عباسی اور خادم اعلیٰ ہوئے شہباز شریف لندن گئے ہوئے تھے۔ میڈیا کی اکثریت کو یقین تھا کہ یہ دونوں باہم مل کر اپنے قائد سے ”طوطیا من موتیا توں اوس گلی نہ جا“ والی فریاد کریں گے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے سابق وزیر اعظم کو مخاصمانہ ہوا کے مقابل تن کر کھڑا ہوجانے کی بجائے جھک کر بُرا وقت گزرجانے کا انتظار کرنے پر آمادہ کریں گے۔ چودھری نثار علی خا ن بھی یقینا اس سوچ کے حامی ہیں۔
اپنی اس سوچ کا دفاع کرتے ہوئے پیر کے روز البتہ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ پاکستان اپنی سلامتی کے حوالے سے ان دنوں 70 کی دہائی کے آغاز میں پیدا ہوئے مسائل سے بھی کہیں زیادہ گھمبیر و خطرناک سوالات کا سامنا کررہا ہے۔
نوجوان نسل کو یہاں رُک کر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس دہائی کے آغاز میں سقوطِ ڈھاکہ ہوا تھا۔ مرحوم مشرقی پاکستان کی بے پناہ اکثریت نے براہِ راست ووٹ کے ذریعے شیخ مجیب الرحمن اور اس کی عوامی لیگ کو متحدہ پاکستان کا حکمران دیکھنا چاہا تھا۔ ہماری اشرافیہ کو یہ فیصلہ مگر قبول نہ تھا۔ فوجی آپریشن اور خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ فوجی مداخلت کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔
آفت کی اس گھڑی میں دنیا کے کسی ملک نے ہمارا ساتھ نہیں دیا تھا۔ کمیونسٹ روس ”غیر جانب دار تحریک“ کے بانیوں میں سے ایک، بھارت کا دوست ہی نہیں بلکہ ایک تحریری معاہدے کے تحت حلیف بھی بن چکا تھا۔ ان دونوں کا اشتراک سردجنگ کی بدولت امریکہ کو ہمارے تحفظ کے لئے اُکسانے کے لئے کافی ہونا چاہیے تھا۔ خاص طورپر اس وجہ سے بھی کہ 1970ءہی میں جنرل یحییٰ کی حکومت نے امریکی صدر نکسن کے مشیر برائے سلامتی -ہنری کسنجر- کے پاکستان کے راستے چین کے خفیہ دورے کا اہتمام کیا تھا۔ بذاتِ خود چین بھی اس ضمن میں ہماری کوئی مدد نہیں کر پایا تھا۔
نظر بظاہر پاکستان کے موجودہ حالات 1970سے قطعی مختلف ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں اس وقت منتخب حکومتیں کام کررہی ہیں۔ نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے مگر اس کے باوجود ان ہی کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی بآسانی نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ عدلیہ ہماری آزاد وخودمختار اور میڈیا بہت ہی بے باک ۔ ان سب کے ہوتے ہوئے چودھری نثار علی خان کو پاکستان ان دنوں 1970کے آغاز میں نازل ہوئے بحران سے زیادہ سنگین مسائل کا سامنا کرتا کیوں نظر آرہا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس پر کئی گھنٹے غور کے باوجود میں اس کاجواب نہیں ڈھونڈ پایا ہوں۔ چودھری نثار علی کے اس دعوے پر غور کرنا مگر اشد ضروری تھا۔ عالمی معاملات کی انہیں خوب پہچان ہے۔ اس کالم میں کئی ہفتے قبل بیان کرچکا ہوں کہ جنرل ضیاءنے 1988کے فضائی حادثے میں اپنی ہلاکت سے چند ماہ قبل جو کابینہ تشکیل دی تھی،چودھری نثار علی خان کو اس میں تیل،توانائی اور گیس کی وزارت ملی تھی۔ اس محکمے کے وزیر کی عالمی معاملات تک رسائی وزیر خارجہ سے کم تر نہیں ہوتی۔ چودھری نثار کو اپنے سیاسی کیرئیر کے ابتدائی ایام میں ویسے بھی اس وزارت کے سبب تیل کی صنعت و تجارت سے جڑے ایک بہت بڑے امریکی سرمایہ دار کی مہمان داری کے فرائض بھی سرانجام دینا پڑے تھے۔ وہ سرمایہ دار پاکستان اور روس کے درمیان افغانستان کے حوالے سے کسی سمجھوتے کی راہ بنارہا تھا مگر جنرل ضیاء کی وفات نے معاملہ بگاڑ دیا۔
پیر ہی کے روز ایک ٹی وی انٹرویو کے لئے میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ تقریباََ تین گھنٹے گزارے۔ ٹی وی سکرین کے لئے انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کیا۔ آن دی ریکارڈ گفتگو کے علاوہ بھی وہ اس ضمن میں بہت پریشان نظر آئے کہ بھارت نے ایران کے ذریعے افغانستان کو اشیائے صرف بھیجنے کا راستہ بنا لیا ہے۔ اس تجارتی راستے سے کہیں زیادہ فکر مند وہ اس حقیقت کے بارے میں تھے کہ افغان حکومت نے پاکستان سے آئے مال بردار ٹرکوں کی وسط ایشیائی ممالک تک رسائی کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
بارہا اس کالم میں چند ٹھوس اعداد و شمار کی مدد سے بیان کر چکا ہوں کہ گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان ہماری برآمدات کے لئے بہت ہی منافع بخش منڈی رہی ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے مگر جب ہم نے سکیورٹی وجوہات کی بناء پر طورخم اور چمن پر واقع سرحدی راستوں کو بند کرنا شروع کیا تو پہلے ایران اور بعدازاں بھارت نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ان سب اشیا، اجناس اور خام مال کی وافر اور سستے داموں ترسیل شروع کر دی جو اس سے قبل صرف پاکستان سے بھیجی جاتی تھیں۔ افغانستان کے ساتھ ہماری برآمدات تین سال قبل تک 4 ارب ڈالر کی خطیر رقم لارہی تھیں۔ اب شاید ان کے ذریعے ہم سالانہ ایک ارب ڈالر بھی نہ کما پائیں۔
کسی ایک ملک کے ساتھ باہمی تجارت میں مسلسل گراوٹ کو وسیع تر تناظر میں شاید نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ ہماری برآمدات اجتماعی اعتبار سے لیکن درآمدات کے مقابلے میں تقریباََ آدھی رہ گئی ہیں۔ اس کی بدولت ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ناقابل اعتبار صورت اختیار کر رہا ہے۔ معاشی معاملات سے واقف ہر شخص بضد ہے کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے پاکستانی زرِ مبادلہ پر بڑھتا بوجھ بالآخر ہمیں IMF سے مدد کی بھیک مانگنے پر مجبور کردے گا۔
اس ”بھیک“ کی امید رکھتے ہوئے ہمیں مگر یاد رکھنا ہوگا کہ امریکی ایوانِ صدر میں ان دنوں ٹرمپ جیسا متعصب شخص براجمان ہے۔ اس نے اگست کے مہینے میں جنوبی ایشیاء کے بارے میں ”نئی پالیسی“ کا اعلان کیا ہے۔ یہ پالیسی ہر حوالے سے پاکستان کو امریکہ اور بھارت کی خواہشات کی تکمیل پر مجبور کرنا چاہ رہی ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے CPEC کی بدولت ابھرتے امکانات کو بھی یہ پالیسی ناممکن نہ سہی مشکل ترین بنادینے پر ہر صورت تلی ہوئی ہے۔
ہماری اشرافیہ ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہونا چاہ رہی ہے،اس کے بارے میں کم از کم مجھ ایسے صحافی کو بالکل خبر نہیں جو کئی برسوں تک خود کو خارجہ امور کا بہت پھنے خان رپورٹر سمجھتے ہوئے شہر میں اتراتا پھر رہا ہوتا تھا۔
نوازشریف کے خلاف فیصلہ آنے سے ایک روز قبل بھی چودھری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ اس کے دوران بھی انہوں نے اصرار کیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کوشدید خطرات لاحق ہیں۔ ان خطرات کی شدت کا مگر اس ملک میں چار یا پانچ افراد سے زیادہ لوگوں کو اندازہ تک نہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں تو انہیں پاکستان کے عوام سے چھپایا کیوں جا رہا ہے۔ سوچ سمجھ کر نپے تلے الفاظ کے ساتھ حقائق کو عوام کے سامنے ایمان داری کے ساتھ رکھ دیا جائے تو مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری اجتماعی دانش ایک طویل اور سنجیدہ بحث کے بعد خیر کے راستے ڈھونڈ ہی لے گی۔
میں بہت دیانت داری سے یہ محسوس کرنا شروع ہوگیا ہوں کہ چودھری نثار علی خان جیسے تجربہ کار سیاست دان کو اس ضمن میں پہل کار کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ٹی وی سکرینوں پر لگائے تماشے میں حصہ ڈالنے کی بجائے انہیں پاکستانی تاریخ کے اس نازک مقام پر وہ کردار ادا کرنا چاہیے جو ایک سنجیدہ اور پُرخلوص سیاست دان کی سیاسی ہی نہیں قومی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔
بشکریہ نوائے وقت