کالم

مغوی

نومبر 5, 2017 7 min

مغوی

Reading Time: 7 minutes

(مطیع اللہ جان کا فیس بک کالم، کیونکہ ایسی باتیں اخبارات میں شائع نہیں ہو سکتیں)

یہ وقت بھی آنا تھا۔میڈیا سے اٹھائیس سال کا تعلق اور عملی صحافت میں تئیس سال سے جمہوریت اور صحافت کی لڑائی لڑنے کے بعد الزام لگتا ہے صحافتی بے اصولی اور مفاد پرستی کا۔اور ان الزامات کا جواب دینے کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔یہ پس منظر ھے احمد نورانی کے دو انٹرویوز کا جن میں انہوں نے فوج کے ترجمان سی ٹیلی فون رابطوں کی خبروں پر متضاد بیانات دئیے- پہلے وقت نیوز کے پروگرام اپنا اپنا گریبان کو انٹرویو میں اپنے ہی ٹی وی چینل پر چلنے والی اس خبر کی تردید کی جسکے مطابق انہوں نے فوج کے ترجمان کو فون پر خود رابطہ کر کے پھولوں کا گلدستہ بھیجنے ہر شکریہ ادا کیا تھا- اس کے بعد اگلے ہی دن اپنے ٹی وی چینل پر انٹرویو میں کہا کہ فون پر پہلے انہوں نے ہی رابطہ کیا تھا- ساتھ میں الزام لگایا کہ مطیع اللہ جان نے انکا انٹرویو اجازت لے کر چلانے کا وعدہ کیا تھا جسکی خلاف ورزی اور صحافتی بے اصولی کی گئ- اسکے علاوہ اس انٹرویو سے میرے ذاتی مفادات و مقاصد حاصل کرنے کا تاٽر بھی دیا- زخمی صحافی احمد نورانی اور ان کے ادارے کی مجبوریوں اور ان پر دباؤ کی صورت حال کا اندازہ تو سب کو ھے مگریہ صورت حال واضح نہ کرنے کی صورت میں صحافت اور اسکا دفاع کرنے والوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ھے-اس لئیے با امر پیشہ وارانہ مجبوری اور مفاد عامہ یہ تحریر ضروری ھے-
صحافیوں کی زندگی پہلے بھی غیر محفوظ تھی اب اپنے قتل اور اپنے اوپر ہونے والے تشدد پر شور مچانے یا دلیل کے ساتھ بات کرنے پر بھی پابندیاں لگ رہی ہیں۔بات اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ کچھ صحافی اپنے اصل ملزموں کا نام لینے یا اس پر شک کا اظہار کرنے سے خوفزدہ تو ہیں ہی اب انکو ایسے بیانات دینے پر بھی مجبور کیا جاتا ہےکہ فلاں فلاں میرا ملزم نہیں ہے ۔ طرفہ تماشا دیکھیں کہ صحافیوں کے کچھ اپنے ادارے کاروباری مفادات اور خوف کے باعث اپنے ہی زخمی صحافی سے منسوب من گھڑت خبر چلا کر تحقیقات اور انصاف کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔متعلقہ متاثرہ صحافی جب اس ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے اپنے ہی الفاظ چبانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ جن صحافیوں کو قتل یاگھائل کیا جائے اور دھمکیاں دی جائیں،ان کے اداروں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ مجرموں کو بے نقاب کریں جس کی بجائے وہ اپنے ہی لئے حق و انصاف کی آواز اٹھانے والوں کو رسوا کرنےپرمجبور ہوجاتے ہیں۔ایک گھناؤنے اور بزدلانہ حملے میں زخمی ہونے والے صحافی احمد نورانی کی کہانی نے نہ صرف صحافیوں کو دہشت زدہ کر دیا ہےبلکہ آزادی صحافت کے لئے آواز اٹھانے والوں کو بھی ایک خوفناک پیغام دیا ہے۔وہ یہ ہے کہ آئندہ کسی صحافی کے قتل یا اس پر تشدد کے واقعے کے بعد اس کو اور اس کے لئے آواز اٹھانے والوں کو "اپنے ہی دوستوں سے ملاقات "کے لئے تیار رہناچاہیے۔مرنے سے بچ گئے تو جیتے جی مار دئیے جائیں گے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحافیوں پر تشدد کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرنے والوں کو آخر چوری چھپے خبریں چھپوانے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے ۔اور پھر اس بیان کی اتنی اہمیت کیوں ہے کہ کس نے کس کو فون کیا اور کس نے کس کو فون نہیں کیا ۔آخر کیوں واٹس ایپ کے ذریعے باقاعدہ بیان جاری کر کے صحافیوں کو اسے خبر بذریعہ ذرائع نشر کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔اب سب جان چکے ہیں کہ ایسے تمام دو نمبر کام واٹس ایپ کالوں اور پیغامات کے ذریعے ہی سرانجام دئیے جاتے ہیں جن کا ریکارڈ بہرحال صارف کے فون میں ہی موجود ہوتا ہے۔اب بات ریکارڈ کی ہورہی ہے تو احمد نورانی کا جمعتہ المبارک کے دن والا مؤقف اسکے اپنے چینل پر یہ آیا ہے کہ اسکے فون ریکارڈ کے مطابق انہوں نے خود ڈی جی آئی ایس پی آر سے رابطہ کرنے میں پہل کی تھی تاکہ پھولوں کا گلدستہ بھیجنے کا شکریہ ادا کیا جاسکے ۔اچھی بات ہے کیونکہ واٹس ایپ کالوں کا ریکارڈ کہیں اور ہو نہ ہو احمد نورانی کے اپنے فون میں تو ضرور ہو گا۔مگر انکا ایک دن پہلےجمعرات والا مؤقف وقت نیوز کے پروگرام اپنا اپناگریبان میں بلا روک ٹوک اور بغیر کسی سوال کے نشر کیا گیا۔جمعرات والے مؤقف کے مطابق پہل انہوں نے نہیں کی اور ان کا کسی پر شک نہ کرنے سے متعلق انکے اپنے اور دوسرے اداروں کی خبریں غلط تھیں جس کی دلیل انہوں نے یہ دی کہ پولیس کے سامنے بیان میں انہوں نے مشکوک افراد کے نام لئے تھے۔نورانی کے مطابق مفاد پرست عناصر کے افواہیں پھیلا نے والی بات بھی انہوں نے نہیں بلکہ ان سے مخاطب فوج کے ترجمان نے کی تھی۔نورانی نے یہ بھی کہا کہ مجھے بڑا دھچکا لگا کہ بہت سے ٹی وی چینل بشمول جیو ٹی وی پر یہ خبر چلی کہ میں نے پہلے ڈی جی آئ ایس پی آر کوکال کی ہے۔
یہ جمعرات والا مؤقف وقت نیوز پر چلنے کے بعد پھر جمعتہ المبارک کامؤقف بھی آ گیا جس کے مطابق وقت نیوز پر ان کا چلنے والا انٹرویو "صحافتی اصولوں ” کی خلاف ورزی تھا کیونکہ بقول نورانی کے یہ انٹرویو انکی اجازت کے بغیر چلایا گیا جیسا کہ بقول انکےانٹرویو دیتے وقت طے ہوا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ چونکہ جمعرات کو صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف عدم کاروائی کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا تھاتو یہ انٹرویو اسی دن کی مناسبت سے ریکارڈ کیا گیا ۔ نورانی نے کہا تھا اور یہ طے تھا کہ شام تک انکی انتظامیہ کے کچھ لوگ ان سے ملنے آ رہے ہیں اور انکے چینل نے اگر ان سے متعلق "جھوٹی خبر” چلانا بند کر کے حقیقت پر مبنی ان کا مؤقف نہ چلایا تو یہ انٹرویو وقت نیوز پر نشر کر دیا جائے گا- شام کو نورانی نے واٹس ایپ پر انتظامیہ سی ملاقات میں تاخیر سے آگاہ کیا اور انٹرویو روکنے کا کہا- جس ہر میں نے واضح جواب دیا کہ آج کی انتظامیہ سے ملاقات پر فوری مطلع کیا جاۓ اور یہ کہ آج (۲ نومبر) صحافیوں کے حملہ آوروں کی چھوٹ کے خلاف عالمی دن ھے- (جس کے لیئے یہ انٹرویو ریکارڈ کیا گیا تھا) اس میسج کا نورانی نے رات دس بجے پروگرام شروع ہونے تک کوئ جواب نہ دیا- جس پر انٹرویو نشر کیا گیا- مجھے اس پر بھی افسوس تھا کی جیو ٹی اپنے زخمی صحافی سے متعلق غلط خبروں کے ذریعے اس پر مزید تشدد جاری رکھے ہوۓ تھا اور شام پانج بجے ایسی ہی جیو کی ایک خبر پر نورانی کو فون کیا تو اس نے کہا کہ اس خبر کو ابھی رکواتا ہوں –
اس تمام صورت حال میں فون کس نے پہلے کیا نجانے یہ معاملہ اتنا اہم کیوں ہو گیا ھے مگر جیو ٹی وی کی وہ خبر کہ احمد نورانی نے فوج کے ترجمان کو فون کر کے وضاحتیں دی کہ انہوں نے کسی پر الزام نہیں لگایا ،ان شہید صحافیوں کے خون کا سودا تھا جن کے قاتل آج تک نہیں پکڑے جا سکے اور انکی تحقیقات آج تک بے نتیجہ ہیں۔
اگر یہ خبر درست ہوتی تو کسی کو اس پر اعتراض نہ ہوتا مگر اسی جھوٹی خبر کو چلانے اور چلوانے والے خود ہی اپنا کردار مشکوک کیوں بنا رہے ہیں؟ اور پھر ایک زخمی صحافی جو پہلے حملہ آوروں کا نشانہ بنا پھر لڑکی کا اسکینڈل جھوٹی خبروں سے اس پر تھوپا گیا۔اس سے متعلق ایسی من گھڑت خبر چلا کر اس پر اس کے اپنوں کی جانب سے مزید تشدد کیا گیا۔مگر صحافت اور صحافتی اصولوں کے تابوت میں تو آخری کیل اس وقت ٹھونکی گئی جب اسی زخمی صحافی جس کو پہلی والی من گھڑت خبر کےحوالے سے اسکے اپنے ادارے نے انٹرویو کے قابل نہیں سمجھا تھا ۔اس کے احتجاج اور متضاد انٹرویو کے بعداس پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ بیچارہ اپنی نوکری اور جان کی خاطر ٹی وی پر اپنے ہی الفاظ چبانے پر مجبور ہو گیا۔ تاہم یہ بات قابل غور ھے کہ احمد نورانی اپنے ملزمان کو نامزد کرنے کے بیان پر قائم ہیں-
کوئی مہذب ملک ہوتا ایک زخمی صحافی پر جسمانی تشدد کے بعد اس کے اپنوں کے ذہنی تشدد اور اسکے ساتھیوں کی اس پر منافقانہ خاموشی کے خلاف پورا معاشرہ سراپا احتجاج ہوتا، عام شہری بھی سڑکوں پر ہوتے ۔مہذب میڈیا ہوتا تو احمد نورانی کے مخالفین ان متضاد انٹرویوز پر اس کو مزید نشانہ بنانے کی بجائے ان اداروں کو بے نقاب کرتاجو صحافیوں پر تشدد کرتے ہیں اور اسکے بعد انکی چیخوں کو روکنے کے لئے انکا گلاگھونٹنے ہیں۔یہی وقت ہوتا ہے کہ مضروب صحافیوں کے لئے انکے ساتھی صحافی آواز اٹھائیں۔زخمی صحافی سے متعلق جھوٹی خبر چلنے پر ساتھیوں کی خاموشی کو مصلحت کہا جاسکتا ہےاگر اس خبر پر احساس ندامت کا اظہار کردیا جاۓ- مگر جب ایک تشدد کے شکار صحافی کونوکری اور جان بچانے کی خاطر ایک مغوی کی مانند ویڈیو ریکارڈکرانے پر مجبور کیا جائے تو ساتھی صحافیوں کی خاموشی ایک سنگین جرم اور گناہ بن جاتی ہے۔سیاستدانوں کی ٹیکس چوری کو آشکار کرنابڑا کام ہے مگر اپنی آنکھوں کے سامنے صحافت کا اغوا اور پھر اسکا بہیمانہ قتل آپکو بھی ایک قاتل بنا دیتا ہے۔
بدقسمتی سے سیاسی حکومتوں کی طرح ہماری صحافت بھی ماضی میں بزدلوں کی مانند ظلم برداشت کرتی رہی ہے جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔کردار اور کہانیاں بھی وہی ہیں صرف مظلوم بدل رہے ہیں۔
سال دو ھزار چھ میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایک مضمون
A case for judicial conference
کے عنوان سے
دی نیوز میں چھپنے پر تجزیہ کار آمان آظہر کو چیمبر میں بلا کر سامنے کھڑا کر کے بے عزتی کی اور دھمکیاں دیں،المیہ یہ تھا کہ تجزیہ کار سامنے کھڑا پسینے میں شرابور تھا اور اس مضمون کو چھاپنے جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کرسی پر بیٹھے چاۓ سے لطف اندوز ہو رہے تھے-
بطور ایک ساتھی میں چیمبر کے باہر امان کا منتظر تھا- وہ باہر نکلا اور پسینہ صاف کرتے ہوۓ اس نے اپنی روداد سنائ- مضمون میں اس کانفرنس کے لئیے محض اضافی بجٹ پر ایک راۓ کا اظہار کیا گیا تھا- بار حال چیمبر میں جانے سے پہلے ہی میر صاحب نے امان سے کہا تھا کہ ہم نے غیر مشروط معافی مانگنی ھے- میں نے اسوقت بھی ایسا نہ کرنے کا کہا مگر وہ نہ مانے- میرا موقف تھا کہ مضمون میں ایسا کوئ توہین آمیز مواد نہیں ھے- چیمبر میں چاۓ پیتے ہوۓ چیف جسٹس صاحب کو انکے بیانات اور کانفرنس کی تشہیری خبروں کا ریکارڈ پیش کیا گیا- باہر نکل کر میر صاحب نے امان کو مجھ سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوۓ کل تک معافی چھاپنے کی نوید سنائ- اگلے روز اس کالم نویس سے پوچھے بغیر ادارے اور امان کی جانب سے معافی شائع کر دی گئ- تو جناب یہ ریت پرانی ھے صحافیوں کو قربانی کا بکرا بنانے کی- اتنا کچھ دیکھنے اور سننے کے بعد اگر آج بھی ہم صحافی حضرات بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی اپنی باری سے بچنے کے لئے قطار کے آخر میں کھڑے ہونے کو ترجیح دیتے رہے تو پھر عوام کا اور اس نظام کا اللہ حافظ جس کا دم ہم ہر دم بھرتے رہتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ثابت ہو جائے گا کہ احمد نورانی جیسے تشدد کا شکار صحافیوں کے ساتھ حملہ آوروں نے تو جو کیا سو کیا ،اسکے اپنے مہربانوں نےبھی اسکو نہیں بخشا۔یہ حملہ ایک احمد نورانی پر نہیں تھا اسی لئے اسکو مخصوص بیان کے لئےمجبور کیا جانا بھی پوری صحافتی برادری کی توہین ہے ۔ مسئلہ صرف نورانی کا نہیں ،اس بے نور معاشرے کا ہے جو یرغمال بنتا جار ہا ہے _

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے