عمران نااہل نہ ہوئے تو
Reading Time: 4 minutesاندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے پاکستان کا بحران مزید خوف ناک ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم میں سے اکثر کو مگر اس کا احساس تک نہیں ہے۔ کم از کم میڈیا نے بلکہ اس کے ذریعے چسکہ فروشی کے سو بہانے ڈھونڈ لئے ہیں۔ سکرینوں پر رونق لگی ہوئی ہے۔ پنجابی والے ’’بھاگ‘‘ لگے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے نواز شریف کو سپریم کورٹ نے ازخود اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ان کے عہدے سے فارغ کیا بلکہ آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت تاحیات قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل بھی قرار دے دیا۔
ان کی نااہلیت کا سفر پانامہ دستاویزات کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے ہوا۔ ان کا نام اگرچہ ان دستاویزات میں موجود نہیں تھا۔ لندن کے چند قیمتی فلیٹس کا ذکر تھا جن کی ملکیت آف شور کمپنیوں کی وساطت سے ان کے بچوں نے حاصل کررکھی تھی۔ سوال یہ اٹھا کہ 80ء کی دہائی سے کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہنے والے نواز شریف کے بچوں کے پاس یہ فلیٹس خریدنے کے لئے رقم کہاں سے آئی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نواز شریف نے حکومتی اختیارات کو ناجائز دولت جمع کرنے کے لئے استعمال کیا اور اس دولت کو منی لانڈرنگ کے مختلف ذرائع سے اپنی اولاد کے نام منتقل کردیا۔
نظر بظاہر،نواز شریف اور ان کے بچے اپنے جوابات سے سپریم کورٹ کو مطمئن نہ کر پائے۔ سپریم کورٹ نے آزادانہ تحقیق کے نام پر ایک JIT بنادی۔ اس تفتیشی ٹیم نے ’’پانامہ‘‘ کے ساتھ ہی ساتھ ایک ’’اقامہ‘‘ بھی دریافت کرلیا۔ نواز شریف اس کی بنیاد پر نااہل ہوگئے۔ JITنے بقول اس کے نواز شریف کے خلاف جو مزید ثبوت اکٹھے کئے ہیں،ان کی بنیاد پر اب احتساب عدالتوں میں مقدمات چلائے جارہے ہیں۔کوئی پسند کرے یا نہیں۔ نواز شریف کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد بھی اس ملک میں موجود ہے۔ غلط یا صحیح وجوہات کی بنیادپر وہ لوگ شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ انصاف نہیں زیادتی ہوئی ہے۔ مبینہ ’’زیادتی‘‘ کے خلاف غم وغصے کی کیفیات نے ہمارے سیاسی نظام میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ ہیجان وخلفشار ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ آف شور کمپنیوں کے خلاف طوفان اٹھا تو دریافت یہ بھی ہوا کہ نواز شریف کو پانامہ دستاویزات کی بنیاد پر کٹہرے میں دھکیلنے والے عمران خان نے بھی ایک آف شور کمپنی بنا کر ہی لندن میں ایک فلیٹ خریدا تھا۔ اس فلیٹ کو بیچ کر انہوں نے اسلام آباد کے بنی گالہ میں ایک وسیع وعریض گھر بنایا۔
عمران خان صاحب کا تو بس ایک ہی فلیٹ تھا۔ ان کی جماعت کے اہم ترین رہ نما اور تحریک انصاف کے رہ نما کے قریب ترین جہانگیر ترین کی ذات سے آف شور کمپنیوں کے علاوہ ان کے پاکستان میں موجود کاروبار کے حوالے سے بھی ’’بے نامیوں‘‘ کی کہانیاں باہر آئیں۔ Inside معلومات کی بنیاد پر ’’ڈرائیوروں‘‘ اور ’’’خانساموں‘‘ کے ناموں سے لاکھوں روپے کی ملکیت والے حصص کی بات چلی۔ مسلم لیگ (نون) کے حنیف عباسی ان معاملا ت کو لے کر سپریم کورٹ چلے گئے۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والا معاملہ بنانا چاہا۔
عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف الزامات سننے والے بنچ کا رویہ، نواز شریف کے خلاف اٹھے سوالات پر غور کرنے والے بنچ سے یقینا مختلف رہا۔ رویے کے اس فرق کو اندھی نفرتوں اور عقیدتوںمیں تقسیم ہوئی ہماری قوم نے مگر ’’نیتوں‘‘ کا فرق بنا دیا۔
نواز شریف کے سادہ لوح چاہنے والے بضد ہیں کہ عمران خان اور جہانگیر ترین سے بھی اپنے مالی معاملات کے حوالے سے ویسی ہی خطائیں سرزد ہوئی ہیں جن کی بنیاد پر نواز شریف نااہل ہوئے اور ان دنوں اپنی اولاد سمیت ا حتساب عدالتوں کے روبرو پیشیوں کی ذلت بھگت رہے ہیں۔ قانونی معاملات مگر ہرگز اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ عدالتیں قوانین اور فریقین کے وکلاء کے مابین دلائل کی بنیاد پر مشتمل ایک کڑے ڈھانچے میں رہتے ہوئے ہی اپنے فرائض نبھاتی ہیں۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کے بارے میں فیصلہ سپریم کورٹ کو اس ڈھانچے میں مقید رہتے ہوئے ہی دینا ہے۔ نواز شریف کے چاہنے والوں کے لئے ’’انصاف‘‘ مگر اسی صورت ہی ہوتا نظر آئے گا اگر عمران خان اور جہانگیر ترین بھی آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدی جائیدادوں کی وجہ سے منتخب اداروں کی رکنیت کے لئے ’’نااہل‘‘ قرار پائیں۔ ایسا نہ ہوا تو عمران خان اور ان کی جماعت ’’عدالتوں کے لاڈلے‘‘ قرار پائیں گے۔ ’’ایمپائر‘‘ کے تذکرے ہوں گے۔ ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کی بات چلے گی۔
عمران خان اپنی حمایت میں فیصلہ آنے کی صورت مگر اخلاقی اعتبار سے بہت طاقت ور ہو جائیں گے۔ اس اخلاقی طاقت کی بنیاد پر وہ سیاسی ہتھکنڈوں سے یقینا ایسا ماحول بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو پاکستان میں قبل از وقت انتخابات کو یقینی بنائیں۔ وقت سے پہلے انتخاب کو اس ملک پر تھوپنے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمران خان کے لئے اسے جیتنا بھی بہت آسان ہو جائے گا۔ ’’جب آئے گا عمران‘‘ والا ترانہ حقیقت کا روپ دھار لے گا۔
اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئی میری قوم کو یہ سب مگر ’’فطری‘‘ نظر نہیں آئے گا۔ عمران مخالف کیمپ کو بلکہ یہ ’’ثابت ‘‘ کرنے کے ’’ٹھوس‘‘ حوالے میسر آ جائیں گے کہ اس ملک کے دائمی اداروں میں بیٹھے چند طاقت ور افراد نے نواز شریف کو تیسری بار اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہو جانا شروع دن سے قبول ہی نہیں کیا تھا۔ ان کے اقتدار سنبھالنے کے دن سے لہذا ’’سازشوں‘‘ کا جال بچھا دیا گیا۔ ’’دھرنے دلوائے گئے‘‘۔ میڈیا اور عدالتوں کو حکومت کے خلاف ’’استعمال‘‘ کیا گیا۔ ثبات، قصہ مختصر ہمارا نصیب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ممکنہ بے ثباتی کے عواقب و نتائج کے بارے میں لیکن ہمارے سیاست دان اور لکھاری ہرگز فکر مند نظر نہیں آ رہے۔ میں نجانے کیوں نقارخانے میں طوطی کی آواز نکالے چلا جا رہا ہوں۔
بشکریہ نوائے وقت