ٹرمپ کی گریٹ گیم
Reading Time: 4 minutesبرما سے شروع ہوں اور سفر سمندر کے ذریعے کرنا چاہیں تو پہلے تھائی لینڈ آتا ہے۔ اس کے بعد ویت نام، بعد ازاں فلپائن اور جاپان۔ بالآخر چین، سنگاپور، ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی اس خطے کا حصہ ہیں۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے فطری روابط بھی ان ہی ممالک سے ہیں۔ یہ خطہ خود کو Pacific سمندر سے وابستہ سمجھتا ہے مگر بحر ہند سے مفر بھی ممکن نہیں۔ آسٹریلیا کی دریافت کے بعد برطانیہ نے اپنے ہاں کے ”جرائم پیشہ“ افراد کو وہاں”دیس نکالا“ کے ذریعے بسایا اور اسے بتدریج ایک انتہائی خوش حال اور طاقت ور ملک بنادیا۔ یورپ نے تین صدی قبل جب بحری طاقت کے بل بوتے پر عالمی تجارت پر قبضہ جمانا شروع کیا تو ہالینڈ، فرانس، سپین اور برطانیہ نے اس خطے کے ممالک آپس میں بانٹ لئے۔ چین اپنے گرد بنائی دیوار، صحرائے گوبی اور ایک بہت پرانی تہذیب اور بے تحاشہ آبادی ہونے کی وجہ سے سامراجیوں کے قبضے میں نہ آ پایا۔ اپنے قبضے میں آئے ہندوستان سے پیدا ہوئی افیون کی تجارت کے نام پر اگرچہ برطانیہ نے شنگھائی کو مرکز بنا کر وہاں پھیلنے کی بہت کوشش کی ٹھوس جغرافیائی وجوہات کی بناء پر اس خطے سے بالکل کٹا ہوا جاپان معدنی اعتبار سے ایک بے وسیلہ ملک تھا۔ باسی اس کے بہت جنگ جو اور وحشی گردانے جاتے تھے۔ وہاں مگر ”میجی“ نام کا ایک بادشاہ آیا جس نے صنعتی انقلاب کی بنیاد ڈالی۔ جاپان میں سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ ملا تو وہاں کی بنائی مصنوعات کے لئے خام مال اور ان کی کھپت کے لئے نو آبادیوں کی طلب پیدا ہوئی۔ جاپان فسطائی ہوگیا۔ فوجی طاقت کے بل بوتے پر چین کو مطیع بنانے کے بعد کوریا پر قبضہ جمایا اور پھیلتے ہوئے برما کے ذریعے ہندوستان میں داخل ہونے کے خواب دیکھنے لگا۔ ایشیا کے سمندروں سے جڑے علاقوں پر تسلط جمانے کی اس خواہش نے بالآخر جاپان کو دنیا کے اس واحد ملک میں تبدیل کیا جسے تاریخ میں پہلی بار (اور خدا کرے کہ آخری بار) ایٹم بم کا نشانہ بناکر شکست سے دو چار کیا گیا تھا۔ ایٹم بم کی پھیلائی تباہی کی وجہ سے جاپان دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے پوری دنیا میں امن کا شدید حامی رہا۔ آئینی طورپر اس نے خود کو اس بات کا پابند بنارکھا ہے کہ اس کی فوج صرف اور صرف ملکی دفاع کے قابل بنائی جائے گی۔ اسے کبھی اس حد تک توانا نہیں بنایا جائے گا کہ وہ دوسرے ممالک کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنا تابع بنانے کے خواب دیکھنا شروع ہوجائے۔چین کا ماضی مختلف ہے۔ وہ جاپان کی نو آبادی ضرور رہا ہے مگر مختصر وقت تک۔برطانیہ کے بعد امریکہ نے بھی وہاں تسلط جمانے کی ہر ممکن کوشش و سازش کی تھی۔ چین نے سامراج سے بچاﺅ کے لئے طویل گوریلا جنگ لڑی۔ اس جنگ میں کامیاب ہونے کے بعد ماﺅزے تنگ نے گوریلا جنگ ہی کے ذریعے وہاں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔ اس نظام کے تحت بہت اتھل پتھل اور خوں ریزی کے بعد بالآخر استحکام نصیب ہوا۔ اس استحکام کو 1980 کی دہائی سے ڈنگ سیاﺅپنگ نے صنعتی ترقی اور معاشی خو شحالی کے اہداف کے حصول پر مرتکز کردیا۔ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا یہ عمل تقریباََ40 برسوں سے مسلسل جاری ہے جس نے چین کو دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی قوت بنادیا ہے۔ اس قوت کو اپنی صنعت کے لئے خام مال اور مصنوعات کی فروغ کے لئے دنیا کے تقریباََ ہر خطے تک تجارتی رسائی حاصل کرنا ہے۔ بحری طاقت اس رسائی کا حتمی تحفظ فراہم کرتی ہے اور فی الوقت دنیا میں امریکہ وہ واحد ملک ہے جو دنیا بھر کے سمندری راستوں پر اپنی فوجی قوت کی وجہ سے اجارہ دار کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اس کے بحری بیڑے دنیا کے ہر سمندر میں پانیوں پر بہتے قلعوں کی صورت نظر آتے ہیں۔ اسے چین کا سمندری راستوں کے ذریعے پھیلاﺅ ہرگز گوارہ نہیں۔ آسٹریلیا اور جاپان کے تعاون اور اشتراک سے وہ سرد جنگ کے دنوں ہی سے چین کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کئے ہوئے تھا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں سوویت یونین کی ”افغان جہاد“ کے ذریعے تباہی کے بعد امریکہ نے صدر بش کے زمانے سے ”دریافت“ کیا کہ سمندری حوالوں سے بحر ہند بھی بہت اہم ہے اور اس سمندر کے گرد سب سے طاقت ور ملک بھارت ہے۔ امریکہ،بھارت،آسٹریلیا اور جاپان باہم مل کر چین کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے صف بندی کررہے تھے۔ ہندو انتہا پسندی کی وجہ سے نمودار ہوا نریندر مودی اب اس صف بندی میں شامل ہونے کو دل وجان سے تیار ہے۔ اسے خوش کرنے کو جاپان میں ایک نئی Termایجاد ہوئی۔ امریکہ نے اسے فی الفور اپنے سرکاری بیانیے کا حصہ بنالیا۔ جس خطے کا ذکر اس کالم میں ہو رہا ہے اسے تاریخی اعتبار سےGeo Strategic ماہرین نے ہمیشہ Asia Pacific کا نام دیا۔ یعنی (مشرقی) ایشیا کے وہ ممالک جو Pacific سمندر سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب اس خطے کو Indo-Pacific کہا جارہا ہے۔ دیکھنے میں نام کی یہ تبدیلی شاید فروعی بات محسوس ہو۔ شیکسپیئر نے ویسے بھی کہہ دیا تھا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ Geo-Strategic سوچ میں لیکن نام فقط نام نہیں ہوتے،پیغام ہوتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ تواتر سے Asia Pacific کی بجائے Indo-Pacific کی اصطلاح استعمال کر رہا ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے اس Term کو خوش دلی سے قبول کرلیا ہے۔ پیغام دنیا کو یہ جا رہا ہے کہ امریکہ،جاپان اور آسٹریلیا باہم مل کر Indo (بحرہند) اور Pacific کو یکجا کردیں گے اور بھارت،ہند ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کا تھانے دار ہوگا۔ چین کی حیثیت ثانوی بنائی جائے گی۔Geo-Strategic حوالوں سے یہ اس صدی کی Great Gameہے۔ تقریباََ ویسی ہی گریٹ گیم جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی سامراج اور زارِ روس کے مابین وسطی ایشیا سے نیل کے ساحل تک پھیلے ممالک پر قبضہ جمانے کے لئے رچائی گئی تھی۔ پاکستان میں اس گیم پر بدقسمتی سے کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ فقط CPEC کے تذکرے ہیں۔ اس راہداری اور اس کے تحت سوچے منصوبوں کو Indo-Pacific عنوان کے تحت سوچے منصوبوں کے تناظر میں رکھ کر دیکھنا ہوگا۔ ہمارے ذہنوں پر لیکن نواز شریف کی ہو چکی اور عمران خان، جہانگیر ترین کی ممکنہ نااہلیاں مسلط ہو چکی ہیں۔ اسلام آباد میں گزشتہ دس دنوں سے بے بس ہوا بیٹھا میں ویسے ہی اس فکر میں مبتلا ہوں کہ مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت کے دارالحکومت کو اسی کے جڑواں شہر، راولپنڈی سے ملانے والا فیض آباد چوک عام ٹریفک کے لئے کب کھلے گا تاکہ بچے سکول جاسکیں، مریضوں کو بروقت ہسپتال پہنچایا جاسکے اور روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے خواتین و حضرات ان دوشہروں کے درمیان روزمرہّ کا سفر کرسکیں۔ میں چین-جاپان کی باتیں کس برتے پر کروں؟
بشکریہ نوائے وقت