وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ میں فیض آباد دھرنے کے مقدمے کی سماعت ہوئی ہے _
عدالت میں استفسار پر چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ ہمیں حکومت نے اقدام اٹھانے سے روکا ہوا ہے، وزیر داخلہ نے عدالت میں بھی کہا تھا کہ ہم نے روکا ہوا ہے تاکہ مذاکرات جاری رہ سکیں_ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ وفاقی وزیر بلکہ وزیراعظم بھی عدالت کے حکم کے خلاف کیسے جا سکتا ہے، یہ عدالت کے حکم کو نیچا دکھانے کی کوشس ہے، عدالت نے احسن اقبال کو توہین عدالت کا شوز کاز نوٹس جاری کر دیا_
جسٹس شوکت صدیقی نے پوچھا کہ وزیر داخلہ نے کس اتھارٹی کے تحت عدالتی حکم کے باوجود کاروائی سے روکا، عدالت نے کہا کہ معاملے کی نذاکت کی وجہ سے ان درخواستون کو 27نومبر کے لیے مقرر کیا جاتا ہے، عدالت نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ ظفر الحق رپورٹ کے عدالت میں پیش کریں، اگلی سماعت تک رپورٹ پبلک نہ کی جائے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ چیف کمشنر ذولفقار صاحب اگلے تین دن میں دھرنے کی جگہ خالی کرائیں، عدالت یہ حکم نہیں دے رہی کہ جا کر سیدھی فائرنگ شروع کر دیں، عدالت یہ لائسنس نہیں دے سکتی کہ سیدھی سیدھی گولیاں مارنی شروع کر دیں، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آدھے سے زیادہ لوگ تو آنسو گیس کے شیلز سے ہی بکھر جائیں گے، ختم نبوت صرف چند لوگوں کی نہیں پوری امت کی میراث ہے، ختم نبوت پر شاید مشکل وقت آئے تو مولوی کم ہونگے عام لوگ زیادہ ہونگے، عدالت نے ڈی جی آئی جی کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا، اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کو بھی طلب کر لیا، عدالت نے لکھا ہے کہ یہ تاثر ختم کیا جائے کہ دھرنے کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ ہے_
آرڈر میں لکھا گیا ہے کہ دھرنے اور احتجاجوں سے متعلق عدالتی حکمنامے کی روشنی میں متعین کیے گئے میرٹس کو یقینی بنایا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی، ریاست کی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے تمام تر عملی اقدامات کیے جائیں _