چینلز بند، پنجاب پولیس آزاد
Reading Time: 2 minutesآپریشن کی براہ راست کوریج سے روکنے کے نام پر چینلز اور سوشل میڈیا کو بند کیا گیا تھا، آپریشن کو باضابطہ روکے ہوئے بھی 17 گھنٹے گزر گئے لیکن چینلز تاحال بند ہیں۔
جب تک چینلز فیض آباد کو فتح کرنے کی خبریں چلا رہے تھے تب تک نہ پیمرا جاگا نہ ہی وزارت اطلاعات۔ جوں ہی پولیس اور ایف سی پسپا ہوئے سب کو خیال آیا کہ اس سے پہلے چینلز خادم رضوی بن کر ہماری ناکامی کا خطبہ دیں انہیں بند کرکے جمہوریت کو مضبوط کیا جائے۔
فورسز کی حکمت عملی کو خفیہ رکھنے کیلئے ٹوئٹر برگیڈ کو بھی خاموش کروا دیا گیا حالانکہ سابق دختر اوّل اور لندن فلیٹس کیس میں مرکزی ملزمہ مریم نواز بھی اسی ٹوئٹر برگیڈ کی فور سٹار جنرل کہلائی جاتی ہیں۔
کل سے ان دانشوروں کو تلاش کر رہا ہوں جو آپریشن کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔
مجھے اس موقع پر شاہد آفریدی کا ساتویں نمبر پر بیٹنگ کرنا یاد آ گیا جب دانشور اننگز کے آغاز سے ہی اسے اوپنر بھیجنے کا شور کرتے تھے اور ہر وکٹ گرنے کے ساتھ مطالبہ زور پکڑتا جاتا تھا کہ آفریدی کو بھیجو چار چھکے مار کر سکور پورا کر دے گا۔ جب آفریدی میدان میں جا کر جلدی آئوٹ ہوتا تھا تو دانشور کہتے تھے اسے تو کھیلنا ہی نہیں آتا۔
کچھ ایسا ہی کل آپریشن کی رٹ لگانے والوں نے بھی کیا۔ ناقص حکمت عملی پر جب پولیس ناکام ہوئی تو آوازیں آنے لگیں کہ یہ صرف ناکے پر موٹرسائیکل روک کر پیسے ہی لے سکتے ہیں آپریشن ان کے بس کی بات نہیں۔ بقول اٹارنی جنرل دھرنے میں اٹھارہ سو افراد شریک ہیں لیکن دس ہزار کی نفری بھی انہیں اٹھانے میں ناکام رہی۔ ناکامی اس وجہ سے ہوئی کہ ردعمل روکنے کیلئے کوئی حکمت عملی ہی نہیں بنائی گئی تھی ۔ مظاہرین کو پیشگی اطلاع کے باوجود لاہور سے اسلام آباد تک سہولیات فراہم کرنے والی پنجاب پولیس نے پورا دن دوران آپریشن صرف اسی وقت حرکت میں برکت سمجھی جب فیض آباد میں واقع چوہدری نثار علی خان کے گھر حملہ کیا گیا اس کے علاوہ پنجاب پولیس نے تماشا دیکھنے کے پورا دن کچھ نہیں کیا۔
اسلام آباد میں مزید آپریشن تو اب نہیں ہوگا تاہم حالات و واقعات سے لگتا ہے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب چینلز کی مشینری یا گھروں میں لگے ٹی وی سیٹس کو مزید آرام دینا چاہتی ہیں۔