اور پھر استعفا
Reading Time: 2 minutesفیض آباد انٹر چینج پر جاری دھرنے کو آج 22 روز سے زائد ہوگئے، مظاہرین کے 12 مطالبات تھے جن میں سے وزیر قانون زاہد حامد کا مستعفی ہونا سب سے ضروری مطالبہ تھا، عدالتی احکامات کے باوجود فیض آباد کلیر نہ ہوا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس بھی جاری کر دیا، نوٹس کے بعد احسن اقبال نے پھرتیاں دکھائیں، بیان آیا کہ دھرنا ختم کرنا تو تین گھنٹے کا کام ہے، عدالتی نوٹس کے بعد آپریشن شروع کیا، ہفتے کے روز صبح سات بجے سے شروع ہونے والا فیض آباد آپریشن سات گھنٹے جاری رہنے کے بعد ناکامی پر ختم ہو گیا، تین گھنٹوں کا دعوٰی کرنے والے 7 گھنٹوں میں بھیج فیض آباد کلئیر نہ کراسکے بلکہ سینکڑوں افراد ربڑ کی گولیوں ، شیلنگ اور آنسو گیس سے متاثر اسپتالوں میں پہنچے، کاروباری افراد کا ان دنوں اربوں کا نقصان ہوا، بچوں کی تعلیم کا حرج الگ جبکہ مریضوں کی خواری اور طویل سفر اور رستوں کی بندش کے باعث کئی جان سے بھی گئے، ہزاروں لوگوں نے جڑواں شہروں کو یرغمال بنا رکھا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اتنا نقصان کرانے کے بعد بھی تو استعفے ہی لینا پڑا،، استعفے کا ہی لین دین کرنا تھا تو اتنا نقصان کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ پہلے تو بڑے بڑے بیان آئے کہ مطالبہ ناجائز ہے، آج ایک مانیں گے توکل کو دوسرے بھی ماننے پڑے گے،، ارے جب آپ کو عدالت نے بھی "ہیلپ لیس” کا لقب دیا،، ایک نہیں بلکہ تین بار،،، تو آپ کیوں بھڑکیں مار رہے تھے؟ وزیر قانون زاہد حامد کے بعد اب صرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ہی نہیں بلکہ یہ تمام ٹوپی ڈرامہ دیکھنے والے افراد بھی آپ کو "ہیلپ لیس” ہی قرار دے رہے ہیں،، کیا ہی اچھا ہوتا اگر مزہبی جماعت کے اس دھرنے کا مطالبہ پوری کی پوری حکومت کا جانا ہوتا،، اب ہوتے ہوئے بھی تو آپ کچھ کر نہ پائے سوائے نقصان کے،، تو بہتر ہوتا ان کے مطالبات میں پوری کی پوری حکومت کو جانا ہوتا، آخر کو آپ جیسی "ہیلپ لیس ” حکومت یہ مطالبہ بھی مان ہی لیتی،، موجودہ صورتحال کو دیکھتے ایک کہاوت یاد آگئی.. "کرے کوئی بھرے کوئی”.. میری تمام تر ہمدردیاں وزیر قانون زاہد حامد کے ساتھ ہیں_