بھٹو زندہ ہے لیکن
Reading Time: 5 minutesٹھیک دس برس قبل یہی دسمبر کا مہینہ تھا جب محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت سے بیس روز قبل لاڑکانہ جانا ہوا۔ ملک میں الیکشن کا ماحول تھا سو اس سفر سے بھٹو خاندان کے آبائی علاقے اور سندھ کی سیاست میں بھٹو فیکٹر کی اہمیت کو خود سندھیوں سے سمجھنے کا بہت موزوں موقع تھا۔ قیام حاجی اللہ رکھا صاحب کے ہاں ہوا جو مکہ مکرمہ میں فروٹ کے بڑے تاجر ہیں۔ ہر چند کہ حاجی صاحب ذوالفقار علی بھٹو یا سیاست کے لئے کوئی اچھے جذبات نہیں رکھتے لیکن ان سے ہونے والی گفتگو میں بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ حاجی صاحب کا بچپن، لڑکپن اور جوانی بہت بے سر و سامانی کا عرصہ تھا۔ انہیں فراوانی اور برکت کا دور دیکھنا تب نصیب ہوا جب وہ روزگار کے لئے بھٹو دور حکومت میں سعودی عرب گئے۔ اگلی صبح گڑھی خدا جانے سے قبل لاڑکانہ شہر میں ہی واقع جے یو آئی کے شہید سنیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو سے ان کے مدرسے میں ملاقات ہوئی۔ ظاہر ہے گفتگو کا مرکزی موضوع سیاست ہی رہا اور چونکہ لاڑکانہ شہر تھا تو سیاسی گفتگو میں بھی مرکزی موضوع بھی پیپلز پارٹی ہی رہی۔ اس گفتگو کا سب سے حیران کن پہلو یہ تھا کہ جب تک پیپلز پارٹی زیر بحث رہی وہ ایک حریف کے طور پر اسے شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو ہی نہیں بلکہ مقامی قیادت اور مقامی قیادت میں بھی بالخصوص نثار کھوڑو ان کی تنقید کا بطور خاص نشانہ رہے لیکن جب دوران گفتگو ایک موقع پر میں نے یہ سوال کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو سندھ کے عوام کے دلوں میں اب تک کیوں زندہ ہیں ؟ تو ان کا پورا رویہ یک دم بدل گیا۔ کچھ لمحوں کے لئے انہوں نے دور خلا میں کسی نہ نظر آنے والے منظر کو دیکھا جو خلا میں تو نہیں تھا لیکن یہ منظر یا مناظر ان کے پردہ تصور پر ضرور موجود تھے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق گفتگو شروع کی تو اپنی پیلی پگڑی اور طویل داڑھی کے باوجود وہ بھٹو کے کوئی بہت ہی سچے اور کھرے فدا کار لگ رہے تھے۔ انہوں نے بھٹو کے قومی ہی نہیں بلکہ ان کارناموں پر بھی بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جن کے سبب بھٹو 2007ء میں بھی زندہ تھا۔ یہ گفتگو جے یو آئی کا ایک ایسا رہنماء کر رہا تھا جو خود بھٹو دور میں ہی لاڑکانہ میں بھٹو کا حریف رہا تھا۔ گڑھی خدا بخش جانے سے قبل یہ جاننا ایک عجیب تجربہ تھا کہ بھٹو صرف جیالے سندھیوں کے دلوں میں ہی نہیں بلکہ جے یو آئی سندھ کے سب سے اہم رہنماء کے دل میں بھی زندہ تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب میں بھٹو خاندان کے مقبرے میں داخل ہوا تو دل پر ہر جانب سے رنج کی یلغار کچھ زیادہ ہی شدید ہوئی۔
آج کی تاریخ میں سیاسی امور کا لگ بھگ ہر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہے کہ کوئی نمایاں تبدیلی رونما کرنے کے لئے ایک وزیر اعظم کی پنج سالہ مدت کچھ بھی نہیں۔ پانچ سال میں صرف زمین ہموار کی جا سکتی ہے تعمیر و ترقی کے لئے کم از کم دو مزید پنج سالہ مدتیں درکار ہوتی ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو نے ساڑھے چار سال حکومت کی اور ان ساڑھے چار سالوں میں انہوں نے جو کچھ کرکے دکھایا اس تاریخ کو شاید ہی کوئی وزیر اعظم دہرا سکے۔ بھٹو کے لئے سب سے نازک چیلنج تو یہی سر اٹھائے کھڑا تھا کہ پرانا پاکستان ٹوٹ چکا تھا، اب بچے کھچے ملبے سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی تھی اور شکست خوردہ قوم کا مورال واپس آسمان پر لے جانا تھا۔ بھٹو نے صرف اس شکست خوردہ قوم میں ہی نئی روح نہیں پھونکی بلکہ اسے پہلا متفقہ آئین دیا، بھارت کی قید میں موجود نوے ہزار فوجی چھڑائے، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، ملک کی پہلی سٹیل مل بنوائی، ملک کے مختلف حصوں میں انجینئرنگ و میڈیکل کالجز تعمیر کروائے اور قادیانی مسئلے کو ہمیشہ کے حل کروادیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عام آدمی کے براہ راست مفاد کے حوالے سے بھٹو کے دو اقدام بہت ہی اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ سیاست کو نوابوں کے ڈرائینگ روموں سے نکال کر عام آدمی کے گلی کوچے تک لے آئے جس سے بھٹو دور میں سیاستدانوں کی ایک بالکل ہی نئی نسل سامنے آئی۔ ہماری نئی نسل تو شاید یہ بھی نہیں جانتی کہ جب بھٹو پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد اپنے پہلے الیکشن میں جانے لگے تو انہیں موزوں انتخابی امیدواروں کے نہ ہونے کا چیلنج درپیش تھا۔ بھٹو نے اس کا حل یہ نکالا کہ بہت بڑی تعداد میں بالکل ہی عام افراد کو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ دئے جو آگے چل کر ملکی سیاست کے بہت نمایاں کردار بنے۔ عوامی نقطہ نظر سے بھٹو کا دوسرا اہم ترین قدم یہ تھا کہ پاکستان کا پاسپورٹ وہ سہولت تھی جس پر صرف اشرافیہ کا حق تھا۔ یہ بھٹو تھا جس نے پاکستان کے عام آدمی کو پاسپورٹ ہی نہیں فراہم کیا بلکہ خلیجی ریاستوں سے روزگار کے مواقع بھی حاصل کئے جس سے آج بھی پاکستان کے لاکھوں شہری فائدہ اٹھا رہے ہیں جن میں ایک بہت بڑی تعداد آج بھی حاجی اللہ رکھا صاحب جیسے ایسے افراد کی ہے جو بھٹو دور سے ہی ان ریاستوں میں کام کر رہے ہیں اور بقول ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید بھٹو کے نہ مرنے کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ روزگار کی صورت بھٹو کا فیض آج بھی جاری ہے۔ وہ روزگار جس سے سندھ کے لاکھوں باشندوں کو روٹی، کپڑا اور مکان میسر آئے ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کا دور آیا تو انہیں دو سخت قسم کے چیلنجز کا سامنا رہا۔ پہلا یہ کہ بھٹو کی پھانسی کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی باقاعدہ دشمنی کی بنیاد ڈل چکی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کو انتقام کے خدشات اور سیاستدانوں کو مزید استبداد کا خوف۔ دوسرا چیلنج محترمہ کو گھر سے ہی زرداری صاحب کی صورت درپیش ہوا جو محترمہ کے دونوں ادوار میں پاکستان کے ’’مرد اول‘‘ کے طور پر اس بات پر قانع نہ رہ سکے کہ پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہو تو یہی بہت غیر معمولی بات ہوتی ہے۔ موصوف پورے کے پورے کڑاہی میں اتر گئے جس سے محترمہ پر کرپشن کے ایسے بدنما داغ لگے جو دھلنے ناممکن تھے۔ وہ دو ادھوری مدتوں کے لئے پاکستان کی وزیر اعظم بنیں ، ادھوری مدت میں بھلا کیا ہو سکتا تھا ؟۔ محترمہ کا ملک کو سب سے اہم فائدہ یہ تھا کہ ان کی صورت چھوٹے صوبے کی ایک طاقتور رہنماء چاروں صوبوں کی زنجیر تھی۔ وہ زنجیر ٹوٹی ہے تو اس سے ملکی سیاست اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ جو فیکٹر پرانے وقتوں میں پردے کے پیچھے سے متحرک رہتا تھا وہ آج کھلے عام متحرک ہے ۔ بھٹو فیکٹر ہے نہیں اور شریف فیکٹر تنہاء ایک مشکل چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ آج بھٹو کی پیپلز پارٹی اپنی پچاسویں سالگرہ پر سکڑ کر سندھ کی مقامی جماعت بنی نظر آرہی ہے تو اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ پنجاب کے لوگ پیشگی بھانپ گئے تھے کہ بھٹو ہونا اور بات ہے اور نام کے ساتھ بھٹو جوڑنا اور بات ۔ انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ زرداری صاحب کی ترجیحات عوام نہیں بلکہ کڑاہی ہی رہے گی جس کے لئے وہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ سمجھوتوں سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ آج کی تاریخ میں چھوٹے اور بڑے دونوں زرداری پنجابی ووٹرز کے ان اندازوں کو درست ثابت کرچکے ہیں۔ شریف خاندان تو جلد یا بدیر اپنے موجودہ بحران سے نکل آئے گا لیکن پیپلز پارٹی جس بحران سے دوچار ہے اس کا کوئی حل ممکن نہیں کیونکہ قومی سطح کی جماعت ہونے کے لئے پیپلز پارٹی اور بھٹو لازم و ملزوم ہیں اور موجودہ پیپلز پارٹی کے پاس بھٹو کی داستانیں تو بہت ہیں لیکن کوئی جیتا جاگتا بھٹو نہیں ہے ۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے لیکن پیپلز پارٹی میں نہیں ہے !
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز