ہائیکورٹ کے دھرنے پر سوال
Reading Time: < 1 minuteاسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں حکومت سے پوچھا ہے کہ ثالثی کیلئے آرمی چیف کا نام کس نے تجویز کیا تھا؟
فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی، جج نے پوچھا کہ پولیس والوں کو دھرنے میں مارا گیا، اس لیے کہ وہ پولیس کی وردی میں تھے، اسلام آباد پولیس والوں کو 4 ماہ کی اضافی تنخواہیں دینی چاہیئں، ان کے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جب تک ایک ایک پولیس والے کو سہولیات نہیں دی جاتیں یہ مقدمہ ختم نہیں ہو گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریاست کا فرض ہے کہ ہر بندے کی نگہداشت ہو، جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ پولیس والوں کے ساتھ جو کچھ ہوا سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، اس کا کیا ہو گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو سرکاری املاک کا نقصان ہوا اسکا ازالہ وفاقی اور صوبائی حکومت کرے گی، جسٹس صدیقی نے کہا کہ ایک احسان کریں مساجد اور مدارس سے کفر کے فتوے بند کرائی، آئی بی نے رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ۔ عدالت نے مقدمے میں حکومت کو دو تجاویز پیش کیں اور ہدایت کی حکومتی سطح پر معاملے کو زیر غور لایا جائے اور پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے ۔