مقدر کا سکندر
Reading Time: 4 minutesنوازشریف”نظریاتی“ ہوگئے ہیں یا نہیں۔ مجھے اس کی خبر نہیں۔ ایک بات مگر طے ہے کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوجانے کے بعد وہ کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے کو تیار نہیں۔ سیاسی محاذ پر ڈٹے رہنے کی یہ خواہش بحران کو گھمبیر سے گھمبیر تر بنارہی ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 1990سے انتخاب ہارنے اور جیتنے والے پنجابی Electables خوب جانتے ہیں کہ عدالتوں سے نااہل ہوئے (یا ”کروائے“) سیاست دانوں کا اقتدار میں لوٹنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ان کے حلقوں میں لیکن 10 سے 15 ہزار لوگوں پر مشتمل ایک متحرک ووٹ بینک ہے جو بہت شدت سے محسوس کر رہا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ انصاف نہیں زیادتی ہوئی ہے۔ آفت کی اس گھڑی میں نواز شریف کو چھوڑ جانے والا Electable لہٰذا لوٹا کہلاتا۔ اس ووٹ بینک کی حمایت سے محروم ہو کر کمزور ہوجاتا۔ نواز شریف سے ”وفاداری“نبھانا اس Electable کی سیاسی مجبوری بن گئی تھی۔
راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے چوک فیض آباد پر 20 دنوں تک چلائے دھرنے نے ان Electables کو اب نواز شریف کی قیادت پر سوالات اٹھانے کی Space فراہم کر دی ہے۔ شاہد خاقان عباسی دھرنے والوں کو ریاستی قوت کے استعمال سے ہٹانے میں ناکام رہے۔ زاہد حامد کو قربان کرکے اپنی حکومت بچالی۔ آئندہ چند دنوں میں شاید وہ ان لوگوں کی ”نشان دہی“ پر بھی مجبور ہوجائیں جنہوں نے مبینہ طور پر ”غیر ملکی طاقتوں کو خوش“ کرنے کے لئے انتخابی قوانین کو اس انداز میں بدلا کہ کئی پاکستانیوں کے جذبات بھڑک اُٹھے۔ ”نشان زدہ“ افراد کی جان و مال کا تحفظ اپنے تئیں ایک سنگین مسئلہ ہوگا جس سے نبرد آزما ہونے کی قوت و سکت مجھے اس حکومت میں نظر نہیں آ رہی۔
شاہد خاقان عباسی مگر پریشان نہیں۔ وفاداری نبھائے چلے جا رہے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں ان کی نشست محفوظ ہے۔ پوٹھوہار میں شاید چودھری نثار علی خان کے علاوہ وہ واحد مسلم لیگی ہیں جو بدترین حالات میں بھی آئندہ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں بآسانی لوٹ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کی شاید انہیں خواہش بھی نہیں۔ حقیقی خوف اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پنجاب کے ان Electables کو محسوس ہو رہا ہے جو باآسانی تحریک انصاف میں جانا بھی چاہیں تو وہاں ان کے لئے گنجائش موجود نہیں رہی۔ جنوبی پنجاب میں چند افراد ”آزاد“ کھڑے ہوکر بھی اپنی نشستیں بچاسکتے ہیں۔ ”آزاد“ منتخب ہوئے لوگوں کو بھی لیکن بالآخر ضلعی افسران سے شفقت وسرپرستی یقینی بنانے کے لئے حکومتِ وقت میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ مسلم لیگ نون کا صرف اپنی قوت کے بل بوتے پر وفاق میں حکومت بنانا اب بھی مشکل نظر آرہا ہے۔ پنجاب کو شہباز شریف سے بچالینا مگر یقینی نہیں۔اس صوبے کے Electablesلہٰذا ”خادم اعلیٰ“ کی گڈبکس میں رہنے پر مجبور ہیں۔
نواز شریف سے ”وفاداری“ ویسے بھی بتدریج گھاٹے کا سودا بنتی نظر آرہی ہے۔ موصوف نے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد بھی اپنے وفاداروں کے تحفظ میں شروع دن سے ناکامی دکھائی۔افتخار چودھری کے عتاب سے بچنے کے لئے زاہد حامد کو وزارتِ قانون سے سائنس وٹیکنالوجی کے محکمے میں بھیج دیا گیا تھا، خواجہ آصف کو ”مسنگ پرسنز“ کے حوالے سے اُٹھے سوالات کا جواب دینے کے لئے سپریم کورٹ کے روبرو دھکیل دیا گیا۔ مشاہد اللہ کا ”غیر ذمہ دارانہ انٹرویو“ ان کی فراغت کا باعث ہوا۔ آخری قربانی پرویز رشید کی ہوئی۔ نہال ہاشمی کا قصہ بھی پرانا ہوگیا ہے۔
اپنے ”قائدِ محترم“ کے مقابلے میں شہباز شریف ”وفاداروں“ کی قدر کرتے نظر آتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بارے میں ہاہاکار مچی تو ڈاکٹر توقیر جیسے وفادار افسر کو بیرون ملک ایک اہم عہدے پر تعینات کروادیا گیا۔ رانا ثناءاللہ کو محض چند دنوں کے لئے وزارتِ قانون سے ہٹادیا گیا۔ طوفان تھما تو وہ اس وزارت میں لوٹ آئے۔
فیض آباد میں دیا دھرنا زاہد حامد کا استعفیٰ لے کر اٹھاتھا۔ یہ استعفیٰ بھی لیکن شہباز شریف نے لیا۔ لاہور میں دیئے دھرنے کو مگر رانا ثناءاللہ کا استعفیٰ نہیں مل پایا۔ یہ معاملہ پیر حمید اللہ سیالوی کے سپرد ہوگیا ہے۔ اتوار کے روز ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ہمیں اطلاع دی گئی ہے کہ شہباز صاحب آئندہ چند روز میں بذاتِ خود پیر صاحب کے حضور پیش ہوں گے۔ شاید ان کی حضوری رانا ثناءاللہ کی معافی تلافی کا سبب بن جائے۔ایک دبنگ راجپوت کی شہرت رکھنے والے فیصل آبادی کو ٹی وی سکرینوں پر رونما ہوکر کلم¿ہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ”دوبارہ ایمان لانے“ کی اذیت نہ سہنا پڑے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے پنجابی Electables میں شہباز شریف صاحب کی Ratings پوری طرح بحال ہوچکی ہے۔ وہ ایک مشفق مائی باپ کی طرح اپنے وفاداروں کو امتحان میں نہیں ڈال رہے۔ نیویں نیویں رہ کر نئے انتخابات کی طرف جانے کی لگن میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔
Street Smart سمجھے خواجہ سعد رفیق بھی شہباز صاحب کی رہ نمائی میں Pragmatic ہوگئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے بہت ہوشیاری سے ڈاکٹر اشرف جلالی اور علامہ خادم حسین رضوی کو ایک دوسرے کے مقابل بھی کھڑا کر دیا ہے۔ تحریک لبیک نے مسلم لیگ (نون) کے ووٹ کاٹ کر اسے انتخابی میدان میں کمزور بنانا تھا۔ اب اس جماعت کی ”حقیقی نمائندگی“ کے جھگڑے کھڑے ہوں گے۔ کمال کی ہٹی بمقابلہ فاروق ستار والی کہانی جس میں سلیم شہزاد اسی صورت نمودار ہوئے ہیں جیسے پنجاب میں پیر حمید الدین سیالوی ۔ کھچڑی میں دلیہ جو بالآخر حلیم رہے گی نہ کھچڑی ۔ آئندہ انتخابات کے دوران مقابلہ ہر حلقے میں (نون) اور تحریک انصاف کے درمیان ہی رہے گا۔ شاہد خاقان عباسی ترقیاتی فنڈ دیتے رہیں۔ شہباز شریف کے لگائے ضلعی افسران فون سنتے رہیں تو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ نون سے جڑے Electables وقت پر ہوئے انتخابات کے دوران خود کو بہت Comfortable محسوس کریں گے۔
”وقت پر ہوئے انتخابات“ والی بات کے نیچے خطِ کشیدہ لگانا میرے ذہن میں آئے سیناریو کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔ اسی لئے عمران خان کی مجبوری ہے کہ وہ قبل از وقت انتخابا ت کے حصول کے لئے آخری حدوں تک جانے کو تیار ہوجائیں ۔ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو شہباز شریف مقدر کا سکندر بن جائیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت