کالم

روٹھے دوست کو منایئے !

دسمبر 5, 2017 4 min

روٹھے دوست کو منایئے !

Reading Time: 4 minutes

نائن الیون جدید انسانی تاریخ میں دہشت گردی کا ایسا سنگین واقعہ تھا کہ جب رد عمل میں امریکہ نے افغانستان کو روندنے کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نہ تھا جس نے اس کے اس یکطرفہ فیصلے کو چیلنج کیا ہو۔ کیا دوست اور کیا حریف، ہر ملک نے صرف تائید ہی نہ کی بلکہ کسی نہ کسی صورت ساتھ دینے کا فیصلہ بھی کیا۔ امریکہ کا افغانستان آنا کوئی معمولی قدم نہ تھا۔ یہ امریکی فوج کی اس چین کے بارڈر تک رسائی تھی جسے امریکہ کبھی جمہوریت کے حق میں خون ریز مظاہروں تو کبھی سنکیانک کی علیحدگی پسند تحریک کی مدد سے غیر مستحکم کرنے کی بہت دور سے کوششیں کرتا رہا تھا۔ مگر نائن الیون کی سنگینی اس شدت کی تھی کہ چین بھی چوں نہ کر سکا۔ روس اس خطے کی سب سے اہم طاقت ہے۔ مانا کہ روس اس وقت معاشی طور پر بہت کمزور حالت میں تھا مگر اسی کمزور حالت میں اس نے مشرقی یورپ میں امریکی میزائل دفاعی نظام کی مزاحمت کر رکھی تھی۔ اور ویسے بھی کوئی ملک اگر وقتی طور پر کسی کمزوری کے سبب حریف کے خلاف کوئی سیاسی، معاشی یا عسکری اقدام نہ بھی کر سکے تو بات کی حد تک اپنا اعتراض ضرور ریکارڈ پر لاتا ہے لیکن امریکہ کی افغانستان آمد پر روس نے بات کی حد تک بھی اعتراض نہ کیا۔ یہ ہم اسی روس کی بات کر رہے ہیں جو آج امریکی منشاء کے بالکل برخلاف افغان طالبان سے تعلقات ہی قائم نہیں کر چکا بلکہ انہیں امداد بھی دے رہا ہے۔ لیکن نائن الیون کے بعد اس نے افغانستان پر امریکی چڑھائی کی حمایت ہی نہ کی تھی بلکہ چند سال بعد اسے سپلائی لائین کے لئے مشرقی روٹ بھی آفر کیا تھا۔ ان مشکل ترین حالات میں پاکستان کو امریکہ کا سہولت کار بننے کا چیلنج درپیش ہوا تو مشرف نے یہ سہولت کاری اس سمجھداری کے ساتھ کی کہ اس خطے میں اجنبی القاعدہ کے خلاف تو بھرپور تعاون فراہم کیا لیکن افغان طالبان اور پاکستان کے تعلقات کو محفوظ رکھا۔ اور یہ اس ہوشیاری کے ساتھ کیا کہ 2006ء تک امریکہ کو شک بھی نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد کے دو سالوں میں امریکہ نے بہت واویلا مچایا، کئی ڈاکومنٹریز اور رپورٹیں بنا کر عالمی میڈیا پر چلوائیں کہ پاکستان ہمارے ساتھ واردات کر رہا ہے، وہ ہمارا نہیں بلکہ افغان طالبان کا ساتھ دے رہا ہے مگر تب تک اسے اتنی دیر ہوچکی تھی کہ وہ پاکستان کا بگاڑ کچھ نہیں سکتا تھا۔

ہر ماہ کئی امریکی وفود پاکستان آتے اور وفود بھی وہ جو وزیر خارجہ، وزیر دفاع، جوائنٹس چیف، سینٹ کام چیف، ایساف چیف پر ہی مشتمل نہ ہوتے بلکہ امریکہ کے معاون کے طور پر برطانوی وزراء اور فوجی سربراہ بھی پاکستان پر دباؤ بڑھانے میں پیش پیش رہتے لیکن پاکستان اس بھاری بھرکم دباؤ سے کامل ہنر مندی سے نمٹتا رہا۔ اس نے ایک بار بھی افغان طالبان سے دغا نہیں کی۔ جنرل مشرف رخصت ہوئے تو جنرل کیانی نے بھی وہی چلن برقرار رکھا اور یوں جلد وہ مرحلہ آگیا کہ طالبان کے خلاف کار روائی کے لئے دباؤ ڈالتا امریکہ طالبان سے مذکرات کروانے کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔ افغانستان میں پڑنے والی مار سے وہ مجبور ہوکر انخلاء بھی چاہ رہا تھا اور شرائط بھی ساری اپنی منوانا چاہتا تھا۔ اس کی تمام شرائط پاکستان کے مفادات کے خلاف تھیں سو پاکستان طالبان کو ان کے قریب لا کر اچانک دور بھی کردیتا۔ چوہے بلی کے اس کھیل میں بھی امریکی بلی کسمسائی بہت مگر کھمبا نوچنے سے زیادہ کچھ نہ کر سکی۔ سلالہ میں وہ کھمبا نوچنے سے آگے گئے تو یہ آگے جانا انہیں ایسا بھاری پڑا کہ دوبارہ ایسی حرکت سے توبہ کرلی۔ مذاکرات کے اس عمل کاسب سے دلچسپ موڑ وہ تھا جب ایم آئی سکس نے اپنے طور پر طالبان سے خفیہ مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ وہ کئی روز تک اپنے طور پر کسی بڑے افغان طالبان کمانڈر سے خفیہ مذاکرات کرتے رہے جسے ایم آئی سکس نے کئی ملین ڈالر بھی دئے لیکن ایک روز اچانک وہ کمانڈر غائب ہو گیا۔ تلاش اور تحقیق شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ جسے طالبان کمانڈر سمجھا جا رہا تھا وہ کوئٹہ کا ایک دکاندار تھا جو دنیا کی سب سے قدیم انٹیلی جنس ایجنسی کو چونا لگا کر نو دو گیارہ ہوگیا تھا۔

جنرل کیانی کے پورے دور میں افغانستان کی صورتحال ہمارے مکمل کنٹرول میں تھی۔ امریکہ کو برطانیہ سمیت اس کے تمام ساتھی افغانستان میں تنہاء چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے اور وہ پوری طرح ہمارے رحم و کرم پر تھا۔ طالبان کے حوصلے آسمان کو چھو رہے تھے اور امریکی مذکرات کی اپیلیں کر رہے تھے۔ امریکی شکست اتنی واضح تھی کہ خود امریکی میڈیا برملا اعتراف کر رہا تھا کہ ہم افغان جنگ ہار گئے ہیں۔ ایسے میں اب جو بھی ہونا تھا مذاکرات کی میز پر ہونا تھا۔ یہ معاملہ اسی افغانستان کا تھا جہاں پچھلی جنگ کی شکست پر بھی مذاکرات کی میز سجی تھی۔ وہ جنگ جو میدان میں تو جیت لی گئی تھی لیکن جنیوا مذاکرات کی میز پر افسوسناک انجام سے دوچار ہوگئی تھی۔ اب ایک اور افغان جنگ کے بعد مذاکرات کی میز کا مرحلہ درپیش تھا۔ پچھلی بار ہم نے زین نورانی پر سارا ملبہ ڈال لیا تھا۔ اس بار کوئی زین نورانی بھی نہ تھا۔ ’’شکریہ راحیل شریف‘‘ کا بخار اس زور کا چڑھا کہ تکبر نے افغان طالبان ہی ہمارے ہاتھ سے نکال دئے۔ آج کی تاریخ میں ہم طالبان کے بجائے اس افغان حکومت سے دوستی کے رشتے قائم کرنے پر مجبور ہیں جس کی این ڈی ایس ہماری اینٹ سے اینٹ بجاتی آ رہی ہے اور ہم خوش فہمی کا شکار ہیں کہ کابل اسلام آباد کا دوست بن جائے گا۔ افغانستان کی سب سے بڑی سیاسی تقسیم تو ہے ہی پرو انڈیا اور پرو پاکستان کی بنیاد پر ۔ ہم افغان طالبان کی حمایت صرف اور صرف پرو پاکستانی قوت کے طور پر کرتے تھے۔ ہم یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ وہاں کے پرو انڈین ہمارے دوست ہوسکتے ہیں ؟ انہیں ضرورت کیا ہے اپنی وابستگی بدلنے کی ؟ اور وابستگی بھی وہ جو انہوں نے 1947ء سے اختیار کر رکھی ہے۔ نومبر کے آغاز میں ہماری جانب سے کابل میں دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا۔ ان کی جانب سے جو جواب ملا وہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے اوپر تلے ایسے واقعات ہیں جن میں پولیس کے بہت اعلیٰ افسران کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب افغانستان میں کوئی بھی ہمارا دوست نہ تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا جینئس دماغ تھا جس نے پہلی بار افغانستان میں پاکستان کے لئے مضبوط دوست کھڑے کرنے کا منصوبہ بنایا اور جنرل ضیاء کے شاطر دماغ نے اسے مکمل کیا۔ پالیسی وہی کامیاب رہے گی جس کی بھٹو نے بنیاد ڈالی تھی اور جنرل ضیاء نے تکمیل کی تھی۔ تجربات کی گنجائش نہیں، افغانستان میں دشمن ہمارا دوست نہیں بنے گا، جتنا جلد ممکن ہو روٹھے دوست کو منائیے ورنہ ہم افغانستان میں ہمیشہ کے لئے ہار جائیں گے اور صورتحال ہمارے لئے ایک بار پھر 1975ء سے قبل والی ہوجائے گی !

بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے