صادق کا لفظ تو نبی کے لیے ہے
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت نوازشریف کی پارٹی صدارت والی شق کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہاہے کہ اگر نوازشریف عدالت میں دفاع نہیں کرنا چاہتے تو دیگر فریقوں کو سن کر فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے درخواستوں کی سماعت کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ فریقین کی جانب سے کون پیش ہو رہا ہے ۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے میں دلائل دوں گا۔ وکیل کامران مرتضی نے کہاکہ قومی اسمبلی کی جانب سے تحریری جواب جمع کرانے کیلئے مہلت د ی جائے۔ چیف جسٹس نے راجہ ظفرالحق کو روسٹرم پر بلا کر کہا کہ آپ وعدہ کرکے گئے تھے میاں نواز شریف کی نمائندگی ہوگی، یا آپ کہہ دیں آپ نواز شریف کی طرف سے نمائندگی کریں گے، اگر وہ نہیں آتے تو ان کو سنے بغیر بھی فیصلہ کر دیں گے۔ نواز شریف کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، عدالت کا نوٹس نوازشریف نے وصول بھی کیا ہے۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق وکیل اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ نواز شریف کا کہناہے قانون پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن بطور سیاسی جماعت اپنا دفاع کرے، نوازشریف اپنا پارٹی صدر کے طور پر دفاع کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔
عدالت نے قرار دیا کہ نواز شریف کے پیش نہ ہونے پر عدالت ان کو سنے بغیر فیصلہ کرے گی تاہم وہ کسی موقع پر عدالتی کارروائی کا حصہ بننا چاہیں تو ان کو اجازت ہوگی۔ پیپلزپارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس قانون پرپارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ درخواستوں میں وفاق کو بھی فریق بنایا گیا ہے تو پھرنیشنل اسمبلی اور سینٹ کو فریق بنانے کی کیا ضرورت ہے، ہم پارلیمنٹ کو بہت تکریم دیتے ہیں، پارلیمنٹ کے حوالے سے میرے فیصلے دیکھ لیں ۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ ہمارے واک آوٹ کرنے پر بل پاس کر لیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دیکھنا پڑے گا کیا ہم قانون سازی کو کالعدم کر سکتے ہیں، قانون کی شق 203 پر بحث کاریکارڈ مانگ لیں گے، کیا ہم قانون سازی کےلیے ہونے والی پارلیمانی بحث کا جائزہ لے سکتے ہیں، فیصلہ جو بھی ہوگا پارلیمنٹ کے فیصلوں پرمستقبل میں اثر انداز ہوگا، کہا جا رہا ہے کچھ چیزیں اخلاقی طور پر درست نہیں، وہ چیزیں قانون کو کالعدم قرار دینے کےلیے کافی نہیں ہیں،ہم نے قانون کی پیروی کرنی ہے، جب تک قانون کی پیروی کریں گے ہم غلط نہیں ہوں گے،۔دیکھناہوگا کن بنیادوں پرقانون کالعدم ہو سکتا ہے۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق عدالت میں درخواست گزار شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہاکہ نواز شریف کوعدالت نے نااہل قرار دیا، نوازشریف نے صادق وامین قرار نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ صادق کا لفظ آپ کدھر سے لے آئے، صادق کا لفظ تو میرے نبی کے لیے ہے، آئین میں لفظ ایماندار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ غالبااس قانون سازی سے نااہلی کو ختم کرنا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا کوئی قانون سازی آئینی قدغن سے بالاتر ہو سکتی ہے ۔ وکیل نے کہا کہ نوازشریف کی نظرثانی درخواست عدالت مسترد کر چکی ہے، غالبا یکم اکتوبر کو صدرمملکت نے قانون کی منظوری دی، پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ساتھ ن لیگ نے آئینی ترمیم بھی کی ۔ جسٹس عمرعطا بندیا ل نے پوچھا کہ ہمیں یہ بتائیں کہ پارٹی صدر بننا آئین سے متصادم کس طرح سے ہے۔ وکیل فروغ نسیم نے کہاکہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر پارٹی سربراہ رکن اسمبلی کو نااہل کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 63A کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی سیاست،وزیر اعظم کے انتخاب اور قانون سازی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ پارلیمانی سیاست میں پارٹی سربراہ کا بڑا کردار ہے۔ جسے عدالت نے ایماندار قرار نہیں دیا وہ پارٹی صدر بن کر پارلیمانی بزنس کو کنٹرول کرے گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے مطابق آئندہ کے وزیر اعظم کا انتخاب بھی پارٹی صدر کرے گا۔آپ کہتے ہیں پارٹی صدر کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جو شخص خود صادق وامین نہیں ہے وہ ایماندا ر اراکین کو کنٹرول کرے گا،ایک طرح سے پارٹی سربراہ کنگ میکر ہو گا۔ وکیل نسیم فروغ نے کہاکہ یہ قانون سازی آئین اور عدالتی فیصلہ سے فرار ہے۔
سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔