مشہوری کیلئے کام نہیں کرتا، چیف جسٹس
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم مشہوری کے لیے کام نہیں کرتے _ عدالت کے تین رکنی بنچ کے سامنے سیکرٹری اطلاعات احمد نواز نے کہا کہ عدالت میں پیش ہونا پہلے کبھی شرمندگی کا باعث نہیں بنا، آج شرمندگی محسوس کر رہا ہوں_ چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات سے کہا کہ چیئرمین پی ٹی وی کیس میں بھی آپ کو شرمندگی ہوئی تھی_ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عطاالحق قاسمی ہمارے بزرگ ہیں لیکن ہم نے قانون کے مطابق چلناہے _ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی سب سے بڑی کمزوری اپنی مشہوری ہوسکتی ہے، ہم مشہوری کے لیے کوئی کام نہیں کرتے، جج مشہوری کے لیے کام کرے تو عدلیہ کوتباہ کر دیتا ہے_ چیف جسٹس نے کہا کہ کھانے پینے کی چیزوں پر بھی ایکشن لیتے تھے تو پنجاب حکومت اشتہار دیتی تھی، ہمیں شہرت نہیں چاہیے، اشتہارات کے بغیر بھی کام چل سکتاہے_ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اشتہارات جاری کرنے کا کیا طریقہ کار ہے، سرکاری اشتہارات پر صوبائی محکمہ اطلاعات کو بھی سنیں گے، اطلاعات رسائی بنیادی حق ہے_ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی چینل پر فارن فنڈنگ ثابت ہوئی تو لائسنس کینسل کر دیں گے، سرکاری اشتہارات کوریگولیٹ کرنا ہوگا، لاہور میں سیف سٹی پر لمبے لمبے اشتہار چلائے گئے، کیوں نہ چینل سے پوچھا جائے پنجاب حکومت نے انھیں کتنے پیسے دئیے، میڈیامالکان ورکرز کے کفیل بنیں مالک نہ بنیں_
چیف جسٹس نے میڈیا ورکرز کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا بھی نوٹس لے لیا اور تمام الیکٹرانک/میڈیا چینلز سے 10دنوں میں آج تک کی تنخواہوں کی تفصیلات طلب کرلیں، عدالت نے تنخواہوں میں تاخیر کی وجوہات بھی طلب کرلیں، عدالت نے کہا کہ دس دنوں کے اندر تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے _
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری اطلاعات بتائیں 17سال سے ویج بورڈ ایوارڈ کیوں نہیں نافذ کیا گیا، کام لٹکانے سے عدلیہ پر بوجھ پڑتا ہے، عوام کے دو دو مرلے کے گھروں کے کیس سپریم کورٹ میں ہیں، عوام کے مقدمات کو ترجیح دیتاہوں _ عدالت نے سیف سٹی پراجیکٹ کے اشتہارات کی دوماہ کی تفصیلات بھی طلب کر لیں، عدالت نے چئیرمین پیمرا اور ممبران کی تعیناتیوں سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے _