میر شکیل بے چارے ہیں؟ جسٹس کھوسہ
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں میر شکیل الرحمن، میر جاوید رحمان اور صحافی احمد نورانی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی _ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی _ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ کیا توہین عدالت کے نوٹس کا جواب جمع کرایا گیا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ توہین عدالت کا تیسرا نوٹس تاخیر سے ملا ہے اس لیے اس کا جواب جمع نہیں کرایا جا سکا، مہلت دی جائے _ مہلت کی درخواست دفتر نے وصول نہیں کی اور کہا کہ براہ راست عدالت میں دی جائے _ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نوٹس تو 24 جنوری کو عدالت میں سماعت کے دوران ہی ہو گیا تھا پھر تاخیر سے کیسے ملا؟ وکیل نے کہا کہ دفتر سے تحریری اور تصدیق شدہ نقل 30 جنوری کو جاری کی گئی اور میں دو دن موجود نہیں تھا اس لیے جواب تیار نہیں کیا جا سکا _
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ وکیل ارشد چودھری نے کہا کہ مارچ کے تیسرے ہفتے میں سماعت رکھ لیں، ہم اس کیس کو جلدی نمٹانا چاہتے ہیں _ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ اس کا مطلب ہے ہم جلدی نہ کریں؟ مارچ کے تیسرے ہفتے تک مہلت نہیں دے سکتے_ وکیل نے کہا کہ مہلت دے دیں تاکہ عمرہ تو کر لیں بے چارے _ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل کی بات پکڑتے ہوئے کہا کہ بے چارے؟
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اتنی بڑی بات نہیں ہے، چھوٹے سے فیکٹ کا جواب دینا ہے، لمبی چوڑی بات نہیں، ایک خبر پر نوٹس ہے اس کا جواب ہی تو دینا تھا، اگر نہیں دینا چاہتے تو دوسرا آپشن (معافی) موجود ہے وہ لے لیں _
وکیل نے کہا کہ میر جاوید رحمان کو آئندہ سماعت پر حاضری سے استثنا دیدیں، انہوں نے عمرہ کر کے علاج کے لیے امریکہ جانا ہے _ عدالت نے ہدایت کی کہ چودہ فروری تک جواب جمع کرا دیں، وکیل نے سماعت کی کجی کی وجہ سے کہا کہ چودہ مارچ؟ تو جسٹس کھوسہ نے کہا کہ چودہ فروری کو کچھ اور بھی ہوتا ہے شاید _
میر جاوید رحمان کو حاضری سے استثنا دیتے ہوئے سماعت اکیس فروری تک ملتوی کردی گئی _