آڈٹ سے استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے میڈیا کمیشن کیس میں 19 اداروں کے آڈٹ کا اختیار آڈیٹر جنرل کے سپرد کر دیا ہے ۔ یہ ادارے خود کو آڈٹ سے مستثنیٰ سمجھتے تھے۔ عدالت نے قرار دیا کہ 19 اداروں کو آڈٹ کروانے سے استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ آڈیٹر جنرل خود کرے، متاثرہ ادارہ متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتا ہے ۔ 19 اداروں میں سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، نیشنل پولیس فاؤنڈیشن، نادرا، واہ نوبل پرائیویٹ لمیٹڈ، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز ویلفیئر ٹرسٹ فنڈ، پنجاب دیہی سپورٹ پروگرام، پنجاب پاور ڈیلپمنٹ کمپنی، پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹ، پنجاب کول مائن کمپنی، پاک چائنہ انویسمنٹ کمپنی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، ایف بی آر اور ٹرسٹ فار والنٹری آرگنائیز یشنز شا مل ہیں ۔ واضح رہے میڈیا کمیشن کیس میں ان 19 اداروں کی فہرست آڈیٹر جنرل نے سپریم کورٹ میں پیش کی تھی اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ یہ ادارے اپنے گوشواروں کی پڑتال آڈیٹر جنرل سے ماوراء رکھتے ہیں، وہ خود مختار ہیں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے انہیں مالی وسائل نہیں ملتے ۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق 8اگست 2013 کو سابق جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تحریری حکمنامے میں قرار دیا تھا آرٹیکل 170 کی شق 2 کی روشنی میں ان اداروں کی جانب سے آڈیٹر جنرل کی پڑتال سے استثناء بادی النظر میں آئینی تقاضوں کے منافی ہے ۔ اردو فیصلے کے پیرا گراف نمبر 18 میں سپریم کورٹ نے یہ بھی لکھا تھا خفیہ کھاتوں کی جانچ پڑتال سے متعلق دنیا کے مختلف ممالک میں کیا عمل رائج ہے اس پر ایک مفید تجزیہ تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی کی رپورٹ میں کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے دنیا کے کئی ممالک مثلا فرانس، جرمنی اور نیدر لینڈ میں اب آڈیٹر جنرل کو خفیہ کھاتوں کے گوشواروں تک مکمل رسائی دی جاتی ہے حتیٰ کہ اسرائیل جیسی سیکورٹی ریاست میں بھی ریاستی آڈیٹر خفیہ اداروں بشمول ’’موساد‘‘ کی حساس ترین معلومات تک رسائی دی جاتی ہے تاکہ حساب کتاب کی بے ضابطگیوں کا مکمل سدباب ہو اور ٹیکس دہندگان کو پتہ ہو کہ اُن کے ٹیکس کی پیسے قانون کے مطابق خرچ ہو رہے ہیں ۔ عدالت نے 19 اداروں کو استثناء کے دعوے کے قانونی جواز کی وضاحت کیلئے 22 جولائی 2013 کے دن نوٹس جاری کیے تھے ۔ بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کی ۔ ڈی ایچ اے لاہور اور کراچی کے وکیل تو انور منصور تھے لیکن پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا جواد ایس خواجہ یہ کرتے تھے کہ ازخود نوٹس ختم ہوجاتا تھا لیکن اس ازخود نوٹس کی ایک متفرق درخواست پر سماعت چلتی رہتی تھی ۔ بعد ازاں عدالت نے 19 اداروں کے آڈٹ کا معاملہ آڈیٹر جنرل کے سپر د کرکے مقدمہ نمٹا دیا ۔