معطل جج ڈی جی کا رشتہ دار
Reading Time: 2 minutesچیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی سے کہا کہ ایگزیکٹ ڈگری کی بات عام ہوگئی اس لیے آپ نے ایکشن لیا، آپ کو تو پتہ ہی نہیں تھا اور نہ آپ نے معلوم کرنا تھا، 2006 سے 2015 تک یہ کام ہوتا رہا۔ اگر یہ الزام درست ہے تو لوگوں کو لوٹا جاتا رہا اور ان سے فراڈ کیا گیا، جب عالمی میڈیا میں آیا تو پھر ایف آئی اے نے کارروائی کی۔ کیا آپ نے تفتیش مکمل کرلی ہے؟ اور اب صرف عدالت میں ثابت کرنا باقی ہے کہ الزام درست ہے؟۔
پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق ڈی جی نے بتایاکہ دو مقدمات میں ملزمان بری ہوگئے ہیں، ایک اسلام آباد میں منی لانڈرنگ اور دوسرا کراچی میں، اب ان فیصلوں کے خلاف اسلام آباد اور کراچی ہائیکورٹس میں ایف آئی اے کی اپیلیں زیرالتواء ہیں۔
چیف جسٹس نے سندھ ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ اپیل سماعت کیلئے لگائی نہیں گئی۔ چیف جسٹس نے سخت لہجے میں کہا کہ کیوں؟۔ بتائیں؟۔ پھر ہدایت کی کہ اس کیلئے خصوصی بنچ بنائیں، سند ھ ہائیکورٹ ڈویژن بنچ کے سامنے اپیل لگائے، دن رات مقدمے کی سماعت کرکے پندرہ دن میں فیصلہ کریں۔ ڈی جی نے بتایا کہ اینٹی منی لانڈرنگ قانو ن کے تحت مقدمہ درج کیا، اسلام آباد کی عدالت سے ملزمان بری ہوگئے۔ اس کے خلاف اپیل کی ہے۔ پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس کے طلب کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے بتایا کہ بائیس فروری کو اپیل سماعت کیلئے مقرر کی گئی ہے اور جسٹس اطہرمن اللہ سنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کو ڈویژن بنچ (دوججوں) کے سامنے لگایا جائے اور اطہرمن اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن اورنگزیب کو شامل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا یہ وہی مقدمہ ہے جس میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے کچھ لیا ہے۔ رجسٹرار نے بتایاکہ اس جج پرویزالقادر میمن کو معطل کیا جا چکا ہے اور ان کے خلاف کارروئی ہائیکورٹ میں کی جارہی ہے، پیر کو ان کا معاملہ ہائیکورٹ کی کمیٹی دیکھے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کی روزانہ کی بنیاد ہمیں رپورٹ دیں ۔ چیف جسٹس نے ڈی جی بشیر میمن کو مخاطب کرکے کہاکہ یہ جج تو آپ کی برادری کا نکل آیا۔ بشیر میمن نے کہاکہ یہ اس کا انفرادی فعل ہے، وہ میرا عزیز بھی ہے، نہیں معلوم کہ قصور وار ہے مگر مجھے شرمندگی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ آپ کا بڑا پن ہے کہ کھلی عدالت میں یہ کہا۔