عاصمہ جہانگیر مزاحمت کی علامت تھیں
Reading Time: 4 minutesاستنبول سے عبدالشکور خان
“عاصمہ جہانگیر” نام تو ہوش سنبھالتے ہی سن لیا تھا لیکن ان سے تعارف عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ہوا ۔ سال دو ہزار دس میں “ڈان نیوز” کے لئے سپریم کورٹ کی رپورٹنگ شروع کی تو عاصمہ جہانگیر کو قریب سے جاننے کا موقع ملا ۔ وہ مجسم کمال تھیں۔ منحنی وجود لیکن پیکر عزم وہمت۔ تیکھے نقوش ، روشن پیشانی، زہین آنکھیں اور سب سے بڑھ کر خوبصورت دل اور بیدار زہن۔
عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق، جمہوریت، قانون کی بالادستی اور ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف جدوجہد کا احاطہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے ۔ اس تحریر کا مقصد اپنے پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے دوران ان کی نڈر اور بے باک شخصیت سے جڑی چند یادوں کا تزکرہ ہے۔
انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان مقدمات کی فہرست بہت طویل ہے۔ اسی کی دہائی میں اپنی وکالت کے آغاز پر ہی بھٹہ مزدورں کو انصاف دلانے کے لئے عدالت میں کھڑے ہو کر انہوں نے مستقبل کے لئے جس راہ کا تعین کیا آخری سانس تک اس پر گامزن رہیں۔
یحیی خان اور ضیاالحق سے لے کر پرویز مشرف کی بدترین آمریتوں کا سامنا کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے علاوہ کردار کشی کے غلیظ ترین حملوں کا سامنا کیا۔ ایسے وقت میں جب بڑے بڑے مردوں کے پتے پانی ہوئے تو پانچ فٹ کی اس خاتون نے اس دبنگ انداز سے غیر جمہوری قوتوں کا مقابلہ کیا جو آج بھی صرف سوچا ہی جا سکتا ہے۔
عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں سڑکوں پر رہیں پولیس تشدد برداشت کیا لیکن جب افتخار چوہدری کی غیرمعمولی اور سیاسی نوعیت کی عدالتی فعالیت دیکھی تو سب سے پہلے علم بغاوت بلند کیا اور اس سیاسی جج کے خلاف ڈٹ گئیں۔ بلوچ قوم پرستوں کی جبری گمشدگیاں ہوں ، دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر شہریوں کا اغوا یا پھر اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ایسا کوئی موقع نہیں تھا کہ ان غیر قانونی اور غیرآئینی اقدام کے خلاف عاصمہ جہانگیر کی توانا آواز سب سے پہلے نہ اٹھی ہو۔ اوکاڑہ کے مزارعین پر تشدد ہو یا قبائلیوں پرامریکی ڈرون حملے، آزادی صحافت اور صحافیوں پر حملوں کے خلاف بھی عملا پیش پیش رہیں۔
عاصمہ کی ایک اور شان بھی تھی، بدترین مخالفین کو بھی جب قانونی اور اخلاقی مدد کی ضرورت پڑی تو ماتھے پربل لائے بغیر ان کے ساتھ کھڑی ہوئیں۔ ایم کیو ایم نے دوہزار سات میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور ایک ‘جارح عورت’ کہا لیکن جب لاہور ہائیکورٹ نے الطاف حسین کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کی تو ان کے عدالت میں دفاع کے لئے بھی صرف عاصمہ نے ہی حامی بھری۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت کے اختتام پر عاصمہ کو عبوری وزیر اعظم بنانے کی خبر سامنے آئی تو ان کا موقف جانے بغیر ہی جنگ گروپ نے ان کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا اور جب پھر اس گروپ کو عدالت میں اپنے دفاعی ضرور پیش آئی تو پھر عاصمہ ہی ان کی مدد گار بنیں۔
زیرک اتنی تھیں کہ دو ہزار دس میں وکلاء سیاست میں قدم رکھا اور پھر اس ک بعد سے ہار کا منہ نہیں دیکھا۔ زاتی زندگی میں انتہائی سادہ اور منکسرالمزاج تھیں۔ قریبی ساتھیوں اور رفقاء کار سے پنجابی زبان میں گفتگو کرتیں وہ بھی ایسی برجستہ کہ سننے والے محظوظ ہوتے ۔
عاصمہ جہانگیر کے ساتھ جس پیشہ وارانہ تعلق کا آغاز دسمبر دو ہزار دس میں ہوا تھا اس کا اختتام ڈیڑھ ہفتہ قبل یعنی اکتیس جنوری کو سپریم کورٹ میں ان سے آخری ملاقات پر ہوا۔ اس دوران کئی موقعوں پر ان سے براہ راست گفتگو کا موقع میسر آیا اور ان کی بہت سی پریس ٹاکس کی کوریج بھی کی۔
ایک بار پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین نجم سیٹھی کے چئیرمین زکاء اشرف کے ساتھ جاری مقدمے کی پیشی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے لئے رکے تو ان کی وکیل کے طور پر عاصمہ جہانگیر بھی ساتھ تھیں۔
میں نے نجم سیٹھی سے سوال پوچھا کہ انہوں نے بیرون ملک اپنا فلیٹ بیچنےکے بعد اس کا ٹیکس کیوں جمع نہیں کرایا؟ اس پر وہ ناراض ہوگئے اور غصے میں مخاطب ہوتے ہوئے دھمکی دی کہ ” میں تمھیں عدالت میں گھسیٹوں گا” اس کے بعد وہ مزید بات کیے چل دیے۔ انہیں رخصت کرنےکے بعد عاصمہ میرے پاس آئیں اور ڈانٹنے کے انداز میں کہنے لگیں کہ یہ سوال کرنے کا کونسا طریقہ ہے ؟ آرام سے سوال پوچھا کرو، چیخنا سوال نہیں ہوتا ۔ میں احتراماخاموش رہا ۔ عاصمہ آگے چل دیں اور پھر رک کر بولیں
” انداز درست نہیں تھا لیکن سوال ٹھیک تھا. میں نے نجم کو کہا ہے کہ سوالات سے کب تک بھاگو گے، یہ کوئی طریقہ نہیں، تم خود صحافی ہو ، دوسروں سےسوالات کرتے ہو تو اگر کوئی تم سے سوال کرے تو اس کو جواب بھی دیا کرو”۔
صرف ڈیڑھ ہفتہ قبل ملاقات ہوئی تو کھنکھناتی ہوئی آواز ” او ہو ، کہاں غائب ہو تم ؟” جواب دیا کہ استنبول میں ہوں_ کہا ” اوتھے کی کر ریا ایں” {وہاں کیا کر رہے ہو؟} میں نے جواب دیا” وہی جو یہاں کر رہا تھا” اور پھر چند مزید باتیں اور سفید کپڑوں میں ملبوس عاصمہ مسکراتے ہوئے چل دیں۔
عاصمہ جہانگیر مزاحمت کی علامت تھیں جو معاشرے کے بے حسوں کا ضمیر جھنجھوڑتے جھنجھوڑتے سو گئی ۔عاصمہ کیا سو ئیں ، ان کے ساتھ ایک عہد سو گیا۔ وہ ایک ایسا خلا چھوڑ کر چلی گئیں جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا . قحط الرجال کسے کہتے ہیں ، کبھی سمجھ نہیں سکا ، عاصمہ کی موت نے آج قحط الرجال کے معنی اور مفہوم بھی سمجھا دیے . جاتے ہوئے بھی بہت کچھ سکھا گئیں .
(عبدالشکور خان گزشتہ سترہ برس سے صحافی ہیں _ آج کل استنبول میں ترک ٹی وی سے منسلک ہیں)