پاکستان پاکستان24

نام چھیننا ہے تو چھین لیں

فروری 22, 2018 2 min

نام چھیننا ہے تو چھین لیں

Reading Time: 2 minutes

 مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے بھی نااہل قرار دیے جانے پر نواز شریف نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ اب نام ہی باقی بچا ہے ۔ ’میرا نام محمد نواز شریف ہے۔ اس کو بھی چھیننا ہے تو چھین لیں۔‘

اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیشی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزارتِ عظمیٰ اور پارٹی صدارت چھین لینے کے بعد اب اس چیز پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے۔

فیصلے کے بعد پہلی مرتبہ ردعمل دیتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’کل کا جو فیصلہ ہے، جسے پارلیمان کہتے ہیں اس کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے اور جو 28 جولائی کا فیصلہ تھا جس میں میری وزارت عظمی چھین لی گئی، یہ جو فیصلہ ہے میرے لیے غیر متوقع فیصلہ نہیں ہے۔‘

نواز شریف نے کہا کہ ’انھوں نے حکومت کو مفلوج کر دیا ہے اور اس بارے میں پرسوں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر ممبران نے بڑے واضح انداز میں بات کی۔‘

پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو انتخابی اصلاحات ایکٹ کے مقدمے میں وزیراعظم نواز شریف کو ان کی سیاسی جماعت کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دیا ہے اور ان کی جانب سے 28 جولائی کے بعد بطور پارٹی صدر کیے جانے والے تمام فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیے ہیں۔

عدالت نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت بھی نہیں کر سکتا۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے سینیٹ کے انتخابات کے لیے پارٹی ارکان کو نئے ٹکٹ جاری کر دیے ہیں۔

وہ یہ ٹکٹ جمع کروانے کے لیے جمعرات کو خود الیکشن کمیشن پہنچے تاہم ابھی تک الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی ردعمل یا موقف سامنے نہیں آیا۔

نواز شریف کی بطور صدر مسلم لیگ ن نااہلی کے بعد ممکنہ طور پر پارٹی قیادت کے حوالے سے مشاورت کے لیے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا اہم اجلاس جمعرات کو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا ہے۔

مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہل کیے جانے کے بعد نواز شریف نے بدھ کو لاہور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے بھی تفصیلی ملاقات کی تھی۔

مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی ’پارٹی قیادت وہی سنبھالے گا جسے نواز شریف اہل سمجھیں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’انجینیئرڈ الیکشن اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہرگز قبول نہیں۔‘

جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ پارٹی کے سربراہ کا عہدہ بھی چھوڑنا پڑا تھا۔ اس کے بعد پارلیمان میں انتخابی اصلاحات سے متعلق ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت کوئی بھی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا۔

انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری کے بعد نواز شریف اکتوبر 2017 میں اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہوئے تھے تاہم اس انتخابی اصلاحات ایکٹ کو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے