پاکستان پاکستان24

شاہد مسعود نے نوٹس کیلئے ترلے کئے، چیف جسٹس

مارچ 12, 2018 4 min

شاہد مسعود نے نوٹس کیلئے ترلے کئے، چیف جسٹس

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور اٹارنی جنرل، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں ۔

عدالت کے تین رکنی بنچ نے سماعت کی تو شاہد مسعود کے وکیل نے کہا کہ جواب میں معذرت اور افسوس والا پیراگراف غلطی سے پرنٹ نہ ہو سکا، چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کوئی پیراگراف تھا ہی نہیں، بعد میں شامل کیا ہے، عدالت میں پڑھ کر سنا دیں ۔

وکیل شاہ خاور نے نیا شامل کیا گیا پیرا گراف پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ پروگرام میں جو کچھ کہا گیا وہ وقتی ابال کا نتیجہ اور اچانک تھا، وہ بات نیک نیتی کے ساتھ کی گئی، اس معزز عدالت اور لوگوں کو اس سے جو تکلیف پہنچی اس کیلئے معذرت خواہ ہوں اور افسوس ہے ۔

چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد نے کہا کہ ٹی وی پروگرام کو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں، اس طرح کی گفتگو اور بے بنیاد بات کر کے عدالت میں اس کو صرف افسوس ناک کہہ دینے پر بھی افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، یہ بدقسمتی ہے کہ اس پر کارروائی نہ کی جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معافی تو انہوں نے مانگی نہیں ہے، ہم مقدمے کو آگے بڑھاتے ہیں، فیصل صدیقی کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر شاہد کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد گزشتہ سماعت پر معافی مانگ چکے ہیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کو قبول نہیں کرتے، معافی کا وقت نکل گیا ہے پہلے بھی کہہ چکے ہیں ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود گزشتہ سماعت پر عدالت میں معافی مانگ چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے معافی نہیں مانگی اور ہم یہ جواب بھی مسترد کرتے ہیں، پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ معافی کا وقت گزر چکا ہے ۔ پیمرا والے اسٹڈی کر کے آئیں کہ کس قانون کے تحت کیا کارروائی کی جا سکتی ہے ۔ چینل کتنے عرصے کیلئے بند کیا جا سکتا ہے اور ان (شاہد مسعود) پر کتنی پابندی عائد کی جا سکتی ہے ۔

پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق سزا ہوگی، یہ عدالتی توہین بھی ہے، عدالت کے سامنے غلط بیانی کی گئی، ڈاکٹر شاہد کاجواب قبول نہیں کر رہے ۔ دیکھنا ہے کہ دہشت گردی کی دفعات کا اطلاق ہوتا ہے ۔ وکیل نے کہا کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو اس طرح پراسیکیوٹ نہ کریں، سینئر جرنالسٹ ہے اور میڈیا پر سچ بات کرتا ہے، اس سے غلطی ہوئی ہے ۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ زینب قتل کی تحقیقات 48 گھنٹے کے لیے شاہد مسعود کے الزامات کی وجہ سے رک گئی تھی ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل شاہ خاور نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر انہوں ایسا کر ہی لیا ہے تو انسداد دہشت گردی کی دفعات والی بات کی طرف نہ لے جائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہم کچھ نہیں کر رہے، جواب پر قانون کے مطابق کارروائی کر رہے ہیں، ابھی تو دیکھ رہے ہیں، جائزہ لے رہے ہیں ۔ چینل کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بار بار یہ کیا گیا ۔

اس موقع پر شاہد مسعود آگے بڑھے اور بولے کی اجازت چاہی تو ان کے وکیل شاہ خاور نے ان کو روکا کہ بس آپ چھوڑ دیں، تاہم شاہد مسعود نہ رکے ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ان کو بولنے دیں ۔ وکیل نے کہ کہ سر، رہنے دیں ۔ شاہد مسعود نے کہا کہ دو دن پہلے بھی ایک بریکنگ نیوز تمام چینلز نے چلائی کہ فروغ نسیم سینٹ الیکشن ہار گئے ہیں بعد میں وہ غلط ثابت ہوئی اور ان کی کامیابی کی خبر نشر کی گئی ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو چھوڑیں، آپ نے تو چیف جسٹس کے ترلے کئے تھے کہ نوٹس لیں، آپ نے کہا تھا کہ مجھے پھانسی لگا دیں ۔ ہم آپ کا پروگرام یہاں دکھائیں گے آپ نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا، آج بھی معافی نہیں مانگی ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو تو غیر مشروط معافی مانگنا چاہئیے تھی ۔ وکیل شاہ خاور نے کہا کہ یہ توہین عدالت کا کیس نہیں وگرنہ غیرمشروط معافی مانگ لیتے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں، معافی کا وقت گزر گیا ہے ۔

وکیل شاہ خاور نے کہا کہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ انسداد دہشت گردی کی بات کی جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے کوئی جرم نہ ہوا ہو، ہو سکتا ہے، ہم تو ممکنات کی بات کر رہے ہیں ۔  پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل نے کہا کہ یہ تو کل کسی بھی صحافی پر دفعہ لگائی جا سکے گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگ جائے، ہم نے انصاف کرنا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کسی حد تک تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو بھی سنیں گے، دیکھنا ہے پیمرا کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عوام کے جاننے کے حق اور اظہار رائے کی آزادی کو بھی دیکھنا ہے، معاملہ سزا جزا کا ہی نہیں، قانون کی تشریح کا بھی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں اچھا فیصلہ آئے گا ۔

پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کو عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا جبکہ شاہد مسعود کے جواب کی نقول اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو فراہم کرنے کا حکم بھی دیا گیا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے