کالم

نوازشریف نے جو عدالت میں کہا

مئی 21, 2018 4 min

نوازشریف نے جو عدالت میں کہا

Reading Time: 4 minutes

احتساب عدالت سے
اویس یوسف زئی

سابق وزیراعظم نوازشریف نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانا شروع کر دیا ہے۔ پیر21جولائی بمطابق 5 رمضان المبارک نواز شریف احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش ہوئے اور عدالت کی طرف سے پوچھے گئے 128 میں سے 55 سوالوں کے جوابات دیے اور بطور ملزم بیان ریکارڈ کرایا۔ 9:05 پر نواز شریف کو روسٹرم پر بلا کر عدالت نے پہلا سوال پوچھا کہ آپ کی عمر کیا ہے ؟ جس کے جواب میں نواز شریف نے عدالت کو بتایا 68 سال ۔

چار کی گھنٹے کی سماعت کے دوران آدھ گھنٹے کا وقفہ ہوا۔ نواز شریف نے ساڑھے تین گھنٹے عدالتی روسٹرم پر گزارے ۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے موکل کی طرف سے عدالتی سولنامے کے تحریر کردہ جواب پڑھنے کی اجازت مانگی تو نیب پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ سردار مظفر عباسی نے اعتراض اٹھا دیا کہ ملزم اپنا بیان خود ریکارڈ کرائے جس کے بعد نواز شریف نے خود بیان ریکارڈ کرایا تاہم خواجہ حارث نے ان کی معاونت کی اور عدالت کی اجازت سے بعض سوالوں کے جواب خود پڑھ کر لکھوائے ۔

نواز شریف نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈ کرتا رہا ہوں۔ وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر خزانہ پنجاب اور وزیراعظم رہ چکا ہوں۔ قوم سے خطاب، قومی اسمبلی میں تقریر یا سپریم کورٹ کے سامنے کبھی نہیں کہا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کیلئے فنڈز دیے یا ایون فیلڈ پراپرٹیز کا بینی فیشل مالک ہوں۔نیلسن اور نیسکول کمپنی کے بیئرر شیئرز سرٹیفکیٹ نہ میرے تھے نہ کبھی میرے پاس رہے ۔

نواز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کو ثبوت کے طورپر نیب ریفرنس کا حصہ بنانے کا نہیں ،صرف جے آئی ٹی کی تحقیقات میں اکٹھے کیے گئے مواد پر انحصار کرنے کا کہا۔ انہو﷽ں نے جے آئی ٹی رپورٹ کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے جے آئی ٹی ارکان پر بھی اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈٖ کرا چکے ہیں۔ انہوں نے جے آئی ٹی کے تمام چھ ارکان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ جے آئی ٹی رکن بلال رسول میاں اظہر کے بھتیجے ہیں۔ میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر نے 29اپریل 2017کو بنی گالا میں عمران خان سے ملاقات کی۔بلال رسول خود مسلم لیگ ن کی حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں اور ان کی اہلیہ پی ٹی آئی کی فعال رکن ہیں جو پی ٹی آئی کے حق میں سوشل میڈیا پر پوسٹس کرتی رہی ہیں۔

نواز شریف نے بیان ریکارڈ کرایا کہ جے آئی ٹی رکن عامر عزیز ،،مشرف دو ر میں میرے خلاف حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی تحقیقات میں شامل رہے۔ بنکنگ انسپکشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر تھے جنہیں پرویز مشرف کے دور حکومت میں 24مارچ 2000 کو ڈیپوٹیشن پر نیب میں ڈائریکٹر تعینات کیا گیا اور وہ میرے اور میرے خاندان کے خلاف ان جھوٹے نیب ریفرنسز کی تیاری کا حصہ رہے جنہیں بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے خارج کر دیا ۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف 1999 سے مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہوا جب ایک شکایت داخل کرائی گئی جو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی بنیاد بنی اور اب وہ علاج کی غرض سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

نواز شریف نے کہا عرفان نعیم منگی کو جب جے آئی ٹی کا رکن مقرر کیا گیا تو خود ان کی اپنی تقرری کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا جو تاحال زیر التوا ہے ۔

نواز شریف نے کہا کہ آئی ایس آئی کے بریگیڈیئرنعمان اور ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئرکامران خورشید کی تعیناتی غیر مناسب تھی۔ستر سالہ سول ملٹری جھگڑے کا جے آئی ٹی کی کارروائی پر اثر ہوا۔بریگیڈیئر نعمان سعید ڈان لیکس کے معاملے کی انکوائری کمیٹی کے بھی ممبر تھے ۔ اس معاملے سے بھی سول ملٹری تناو میں اضافہ ہوا۔

نواز شریف نے کہا کہ واجد ضیاء جانبدار تھے جنہوں نے اپنے کزن اختر راجہ کو سالیسٹر مقرر کیا جس نے جھوٹی دستاویزات تیار کیں ۔واجد ضیا جے آئی ٹی کے سربراہ تھے مگر درحقیقت جے آئی ٹی کے دیگر ارکان کے زیر اثر تھے ۔

جے آئی ٹی کی دس والیم پر مشتمل رپورٹ خود ساختہ اور غیر متعلقہ تھی جو سپریم کورٹ میں درخواستیں نمٹانے کیلئے تھی۔ اسے ریفرنسوں میں بطور شواہد قبول نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے باہمی قانونی معاونت کی دستاویزات کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ، ان ایم ایل ایز کی بنیاد پرریفرنس کا فیصلہ نہ کیاجائے۔ ایون فیلڈ پراپرٹیز کا کبھی بھی حقیقی یا بینیفشل اونر نہیں رہا۔ خریداری کیلئے فنڈزمیں نے فراہم نہیں کئے۔پراسیکیوشن بھی ایسے شواہد پیش کرنے میں بری طرح ناکام رہا جن سے فلیٹس کے ساتھ میراتعلق ظاہر ہو۔منی ٹریل سے متعلق سوال حسن اور حسین نواز سے متعلقہ ہے جو عدالت میں موجود نہیں۔

نواز شریف نے کہا یہ ایک حقیقت ہے کہ 12اکتوبر1999 کو مجھے گرفتار کر کے غیر قانونی حراست میں لیا گیا۔بعد میں سعودی عرب جلا وطن کر دیا گیا جہاں سے 2007 میں واپسی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ طارق شفیع کو اس ریفرنس میں گواہ یا ملزم نہیں بنایا گیا اس لیے قانون کے مطابق طارق شفیع سے منسوب کوئی بیان یا بیان حلفی میرے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف نے کہا مجھے علم نہیں کہ گلف اسٹیل ملزکے قیام کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا؟ حدیبیہ پیپر ملز کے کاروبار میں کسی بھی طور پر شامل نہیں رہا ۔

نواز شریف نے کہا رابرٹ ریڈلے کو جس طرح دستاویزات بھجوائی گئیں اور عجلت میں رپورٹ تیار ہوئی وہ یک طرفہ اور متعصب ہے ۔رابرٹ ریڈلے گواہی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتا نظر آیا ،رابرٹ ریڈلے نے غیر ضروری جلد بازی میں رپورٹ تیار کی ، رابرٹ ریڈلے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری کے لئے کیلبری فونٹ استعمال ہوا ،ریڈلے کے مطابق کیلبری فونٹ 31 جنوری 2007تک کمرشل استعمال کے لئے دستیاب نہیں تھا ، رابرٹ ریڈلے کے مطابق اس فونٹ کا استعمال اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھا ، رابرٹ ریڈلے کا یہ بیان بدنیتی پر مبنی ہے ،رابرٹ ریڈلے نے اعتراف کیا کیلبری فونٹ 2005میں دستیاب تھا اور انہوں نے ڈاوٴن لوڈ کیا ، رابرٹ ریڈلے کمپیوٹر یا آئی ٹی ماہر نہیں تھا ۔ نواز شریف کا بیان جاری تھا کہ سماعت منگل کے روز صبح نو بجے تک ملتوی کر دی گئی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے