عدالت میں مریم نواز کا بیان
Reading Time: 4 minutesاحتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران مریم نواز نے اپنا بیان قلمبند کرانا شروع کیا ہے اور آج کی کارروائی میں 47 سوالات کے جواب دیے ہیں ۔
عدالت کے پوچھنے پر مریم نواز نے بتایا کہ میری عمر 44 سال ہے، یہ بات درست ہے کہ میرے والد عوامی عہدوں پر رہے، جے آئی ٹی اور جے آئی ٹی رپورٹ اس کیس سے غیر متعلقہ ہیں، مریم نواز نے کہا کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لئے تشکیل دی گئی، جے آئی ٹی کا اخذ کردہ نتیجہ اور رائے غیر مناسب اور غیر متعلقہ ہے، اس کی رائے کو ان حالات میں اس کیس میں میرے خلاف پیش نہیں کیا جا سکتا ۔
مریم نواز لکھے بیان میں کومہ اور فل سٹاپ بھی پڑھنے لگیں جس پر جج نے کہا کہ کامہ نہ پڑھیں ۔ مریم نواز نے کہا کہ میرے وکیل نے پڑھنے کو کہا تھا میں نے پڑھ دیا ۔
مریم نواز نے بتایا کہ بیس اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں میرا اور میرے خاوند کا ذکر نہیں تھا، پانچ مئی 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، جے آئی ٹی کا اس ٹرائل سے کوئی تعلق نہیں ۔ مریم نواز نے کہا کہ سنہ 2000 میں عامر عزیز بطور ڈائریکٹر بینکنگ کام کر رہے تھے، عامر عزیز کو 2000 میں مشرف حکومت نے ڈیپوٹیشن پر نیب میں تعینات کیا ۔ مریم نواز نے کہا کہ بریگیڈیئر نعمان کا تعلق آئی ایس آئی اور بریگیڈیئر کامران کا تعلق ایم آئی سے تھا، ان دونوں افراد کی جے آئی ٹی میں تعیناتی مناسب نہیں تھی ۔ مریم نواز نے کہا کہ ستر سالہ سول ملٹری جھگڑے کا بھی جے آئی ٹی پر اثر پڑا، میری اطلاعات کے مطابق بریگیڈیئر نعمان سعید ڈان لیکس کی انکوائری کمیٹی کا حصہ تھے، ڈان لیکس کی وجہ سے سول ملٹری تناو میں اضافہ ہوا، جے آئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان سعید آئی ایس آئی میں نہیں تھے، نعمان سعید کو آوٹ سورس کیا گیا کیونکہ ان کی تنخواہ بھی سرکاری ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتی ۔ مریم نواز نے کہا کہ عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے، عرفان منگی کو بھی جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا ۔
مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیئے کہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جا سکے، ایسے اختیارات دینا غیر مناسب اور غیر متعلقہ تھے ، جے آئی ٹی کی دس والیم پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ غیر متعلقہ تھی، جے آئی ٹی کی خود ساختہ حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں دائر درخواستیں نمٹانے کے لئے تھی ، ان درخواستوں کو بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا ، جے آئی ٹی تفتیشی رپورٹ ہے جو ناقابل قبول شہادت ہے ۔
مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی طرف سے اکٹھے کئے گئے شواہد کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے کا کہا، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے، تفتیشی ٹیم کے رکن بلال رسول کی اہلیہ بھی پی ٹی آئی کی سپورٹر ہیں، بلال رسول کی اہلیہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی سرگرم رکن ہیں ۔ تفتیشی ٹیم کے ایک اور رکن عامر عزیز نے آمر مشرف کے دور میں حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کیں، یہ حقیقت سب کے سامنے ہے عامر عزیز نے سنہ 2000 میں میرے والد اور میرے خاندان کے خلاف دائر ریفرنس میں تفتیشی تھے ۔
مریم نواز نے کہا کہ جے آئی ٹی نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں، یہ تفتیش یکطرفہ تھی، اختیارات سے متعلق نوٹیفکیشن جے آئی ٹی کی درخواست پر جاری کیا گیا، جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لئے بنائی گئی تھی، اس ریفرنس کے لئے نہیں، جے آئی ٹی ارکان پر تحفظات سے متعلق میرا بھی وہی موقف ہے جو نواز شریف کا تھا ۔ جے آئی ٹی نے یکطرفہ تفتیش کی، جے آئی ٹی کے یو کے، یو اے ای اور سعودی عرب کو لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کئے گئے، والیم ٹین کے حصول کے لئے اس عدالت نے میری درخواست مسترد کر دی تھی، باہمی قانونی معانت (ایم ایل ایز) کو بطور شہادت میرے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا، تفتیشی ایجنسی کا ریکارڈ کردہ بیان قابل قبول شہادت نہیں ۔
سوال کیا گیا کہ آپ نے سپریم کورٹ میں لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق جو موقف اپنایا اس پر کیا کہیں گی؟ مریم نواز نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں کبھی نہیں کہا کہ لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک رہی ہوں، ثبوت نہیں کہ کب، کیسے اور کس نے پانامہ کا ریکارڈ حاصل کیا، اس کیس میں پیش کی گئی دستاویزات دوسرے میں پیش نہیں کی جا سکتیں، سوال نمبر 15حسن اور حسین نواز سے متعلق ہے، حسن اور حسین نواز اس عدالت میں موجود نہیں، طارق شفیع کے بیان حلفی کا مجھے علم نہیں، طارق شفیع کو بطور گواہ یا ملزم شامل نہیں کیا گیا، طارق شفیع کے بیان حلفی کو میرے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا، حسین نواز سے کبھی میری موجودگی میں جے آئی ٹی نے تفتیش نہیں کی، کہا گیا کہ طارق شفیع اور شہباز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے معاہدے پر دستخط پہچاننے سے انکار کیا، طارق شفیع اور شہباز شریف نے جے آئی ٹی میں میری موجودگی میں انکار نہیں کیا، دونوں نہ گواہ ہیں اور نہ ہی اس کیس میں ملزم نامزد ہیں ۔
عدالت نے سوال کیا کہ نیب کی طرف سے جاری نوٹس پر تحقیقات میں کیوں شامل نہیں ہوئیں، مریم نواز نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں پیش ہو کر اپنی صفائی دی تھی، سپریم کورٹ نے نیب کو تحقیقات کے بجائے براہ راست ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا، اگر سپریم کورٹ ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی تو نیب تحقیقات میں صفائی دینا بے سود تھا، تفتیشی افسر نے نوٹس میں عدم پیشی کی صورت میں فیصلہ بھی سنا دیا، تفتیشی نے کہا پیش نہ ہوئے تو سمجھا جائے گا کہ صفائی میں کچھ نہیں، کیا قانون نیب کے تفتیشی افسر کو یہ فیصلہ سنانے کا اختیار دیتا ہے، طلبی کا نوٹس محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا، نیب کے گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے، نیب گواہ نے سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی رپورٹ حاصل کرنے کا کوئی ثبوت نہیں دیا، میرے والد کی تقریر اور بھائیوں کے انٹرویوز مصدقہ نہیں ہیں، میرے بھائی کا انٹرویو بی بی سی کے بجائے یو ٹیوب سے ڈاؤنلوڈ کیا گیا، ٹی وی انٹرویوز اور اس کا متن قابل قبول شہادت نہیں ہیں ۔
عدالت میں مریم نواز کا بیان کل بھی جاری رہے گا