یہاں مشہوری کے لیے نہیں بیٹھا، چیف جسٹس
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ نے 54 ارب روپے قرض معافی کیس میں قرضے معاف کرانے والوں کو رقم واپس کرنے یا مقدمات کا سامنا کرنے کا آپشن دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ قرضے معاف کرانے والو کے پاس دو آپشن ہیں، پہلا آپشن مقدمات کا سامنا دوسرا آپشن 75 فیصد رقم واپس کرنا ہے، جس نے آپشن لینا ہے تحریری طور پر بتا دے ۔
عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں قرض معاف کرانے والوں کے خلاف لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کی ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن رپورٹ پر نیب یا ایف ائی اے سے تحقیقات کروا لیتے ہیں، کسی کے ساتھ نہ انصافی نہیں ہوگی، دوسری صورت یہ ہے کہ تین دن میں ہم خود ہر کیس کا جائزہ لیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقات میں سامنے ائے گا قرض معافی کے پیچھے بدنیتی تو نہیں تھی، جو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنے ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی ہوگی ۔
درخواست گزار وکیل نے کہا کہ کئی افراد نے بغیر کسی گارنٹی کے قرض لیے، چوہدری شجاعت نے ذاتی تعلقات پر قرض لیا تھا، عدالت ہر فرد کے کیس جائزہ لے کر معاملہ بینکنگ کورٹ کو بھجوائے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق قرض معاف کرانے والی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ نیب میں کیس گیا تو فوجداری کارروائی ہو گی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قرض غیر قانونی طور پر بھی معاف کرانا جرم ہے، جو قرض معافی تسلیم کر رہے ہیں وہ رقم واپس کریں ۔ نجی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ بینک کے ساتھ معاملات طے کرنے کو تیار ہیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں اور وکلا نے اس وقت بینکوں سے سمجھوتے کروائے، یہ عوام کا پیسہ تھا، عدالت صرف تعمیری کام کرے گی، پیسہ بینک کی بجائے قرض اتارنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ملک کے لیے کچھ کیا جائے، کسی کو قبر میں کچھ ساتھ لے کر جاتے نہیں دیکھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر پیدا ہونے والا ایک لاکھ 17 ہزار کا مقروض ہے ۔ نجی بینک کے وکیل نے کہا کہ عدالت سب کو رضاکارانہ رقم واپسی کا آپشن دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک پرویز کو کہیں کہ قرض کی رقم واپس کرے، میرا کوئی قریبی عزیز بھی ہو تو رقم واپس کرنا ہوگی، قوم کا پیسہ سب کو واپس کرنا ہو گا، کوشش ہے کہ معاف قرضوں کی رقم واپس ملے، قرضہ معاف کروانے والے خوش اسلوبی سے رقم واپس کر دیں ایسی صورت میں مارک اپ بھی معاف ہوسکتا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اگر خوش اسلوبی سے رقم لینے واپس نہیں کرنی تو اصلی رقم مارک اپ کے ساتھ واپس کرنا پڑے گی، جو خوش اسلوبی سے رقم واپس نہیں کرنا چاہتے ہو سکتا ہے ان کا معاملہ نیب کو بھجوا دیں، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنا چاہتے، جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے وہ اصل رقم کا 75 واپس کریں، معاملہ نیب کو بھیج دیا تو گڑ بڑ نکل آئے گی، قرضے کی واپسی کی رقم قومی فنڈز میں نہیں جائے گی، چیف جسٹس نے کہا کہ واپس لینے والی رقم سپریم کورٹ کے کھولے اکاؤنٹ میں جائے گی، اس قوم پر بہت قرضے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ قرضے معاف کرانے والوں کے پاس دو آپشن ہیں، پہلا آپشن مقدمات کا سامنا کریں، دوسرا آپشن 75فیصد رقم واپس کریں، جس نے آپشن لینا ہے تحریری طور پر بتا دے، کسی کے ساتھ نہ انصافی نہیں ہوگی، جو چاہتے ہیں مقدمات بینکنگ کورٹ بھجوائے جائیں انہیں اصل رقم جمع کرانی ہوگی، ایسے لوگوں کی جائیدادیں بھی ضبط کرائیں گے، اس قوم کا ایک ایک پیسہ وصول کرنا ہے، مشہوری کے لیے یہاں نہیں بیٹھا، اگر ایسا نہ کر سکا تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ ۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی ۔