خاتون وکیل نے چیف جسٹس کو سنا دیں
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں عطا الحق قاسمی کو پاکستان ٹیلی ویژن کا منیجنگ ڈائریکٹر لگانے پر لئے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار اور قاسمی کی وکیل عائشہ حامد میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے ۔ عدالت کو وکیل عائشہ حامد نے بتایا کہ وزارت اطلاعات کی جائنٹ سیکرٹری صباء محسن نے عطاء الحق قاسمی کی تنخواہ اور مراعات کی سمری وزیراعظم کو بجھوائی تھی ۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کو عطا الحق قاسمی کی وکیل نے بتایا کہ قاسمی کا انتخاب بطور چیئرمین پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹر کے اجلاس میں کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی کا تقرر خفیہ طریقے سے کیا گیا ۔
عطا الحق قاسمی کی وکیل عائشہ حامد نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو عدالت میں کھل کر اپنی بات سمجھائی اور کہا کہ میں دوسرے وکیلوں یا اٹارنی جنرل کی طرح عدالت کی ہاں میں ہاں نہیں ملا سکتی، یہاں اپنے مؤکل کے دفاع کیلئے کھڑی ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ عدالتی روسٹرم چھوڑ کر باہر نکل گئیں اور بعد ازاں سپریم کورٹ کے احاطے سے ہی نکل گئیں ۔
عطاء الحق قاسمی کی وکیل کی چیف جسٹس سے سماعت کے دوران تلخ کلامی اس وقت ہوئی جب انہوں نے قاسمی کی جانب وزیراعظم کو ایم ڈی پی ٹی وی لگانے کیلئے لکھا گیا خط پڑھا، پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے خط پڑھے جانے کے دوران کہا کہ بلائیں قاسمی کو، کیا وہ اس طرح کا لیٹر لکھ سکتا ہے؟ کیا ایسی انگریزی ڈکٹیٹ کرا سکتا ہے، ابھی دو گھنٹوں میں ان کو یہاں بلا لیں، کیا ہمیں پتہ نہیں کہ اس کے پیچھے کیا کچھ ہوا ہے، عطاء الحق قاسمی کی تقرری خفیہ طریقے سے کی گئی، آپ خاتون ہیں آپ کو کیا کہیں، بہرحال آپ دلائل دیں ۔ عائشہ حامد نے اس بات پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ خاتون ہونے کا کیا مطلب؟ میرے ساتھ بلا تفریق ایک وکیل کی طرح برتاؤ کیا جائے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق عائشہ حامد نے کہا کہ وفاقی حکومت کو چیئرمین پی ٹی وی تعیناتی کا اختیار ہے، میرے موکل نے ایم ڈی کی تقرری کے لیے وزیراعظم کو خط لکھا ۔
عائشہ حامد نے عطاء الحق قاسمی کی طرف سے وزیراعظم کو لکھا گیا خط پڑھا ۔ خط میں عطاء الحق قاسمی نے ایم ڈی کے تقرر کیلئے اپنی اہلیت سے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق عدالت میں خط پڑھے جانے کے دوران چیف جسٹس نے خاتون وکیل کو ٹوکتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا عطاء الحق قاسمی کو ایسا خط لکھنا آتا ہے، بلا لیتے ہیں عطاء الحق قاسمی کو اور دیکھتے ہیں وہ ایسا خط لکھوا سکتے ہیں؟ ان سے عدالت میں ڈکٹیٹ کروا لیتے ہیں، ابھی 4 گھنٹوں میں عطاء الحق قاسمی کو پیش کریں، عطاء الحق قاسمی کو فوری بلا لیں ۔ وکیل عائشہ حامد نے فوری ردعمل ظاہر کیا اور جواب دیا کہ گزشتہ روز بھی اسی طرح کا رویہ اختیار کیا گیا، میں اٹارنی جنرل نہیں کہ آپ کی مرضی کی بات کروں، دوسرے وکیلوں کی طرح آپ کی ہاں میں ہاں نہیں ملا سکتی، دفاع کی وکیل ہوں اور مجھے اپنے موکل کے دفاع کا پورا حق ہے ۔ یہ کہتے ہوئے عائشہ حامد نے غصے میں عدالت کا روسٹرم چھوڑا اور کمرہ عدالت سے چلی گئیں ۔
چیف جسٹس نے اگلا کیس لگانے کیلئے ‘نیکسٹ’ کہا اور اس دوران اٹارنی جنرل بھی عدالت میں کھڑے ہو گئے ۔
تقریبا ایک گھنٹے بعد چیف جسٹس نے ایک اور کیس کی سماعت کے دوران عدالتی عملے سے کہا کہ وکیل عائشہ حامد سے رابطہ کریں اور پوچھیں کہ عطا الحق قاسمی کب تک آئیں گے ۔
یاد رہے کہ عطا قاسمی کی وکیل عائشہ حامد سابق گورنر پنجاب اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شاہد حامد کی صاحبزادی اور سابق ایڈووکیٹ جنرل عاصمہ حامد کی بہن ہیں ۔