پرچی کی طاقت !
Reading Time: 4 minutesپچھلے اکیس بائیس سال سے ایک آدمی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ
"میں نے تمہیں جو ورلڈکپ جیت کے دیا تھا اس کے صلے میں مجھے وزیراعظم بناؤ !”
یہ مطالبہ لے کر وہ سب سے پہلے قوم کے پاس گیا اور اسے یقین تھا کہ ہر وہ شخص اسے ووٹ دے گا جسے ورلڈکپ جیتنے کی خوشی ہوئی تھی مگر قوم کو اس کا یہ مطالبہ "بالکل پسند نہیں آیا” قوم نے ٹھینگا دکھا دیا۔ یہاں سے مایوس ہوکر وہ جنرل مشرف کے پاس گیا مگر مشرف کو بھی یہ بندہ بالکل پسند نہیں آیا، اس نے وزارت عظمی کے بجائے پیپسی کی بوتل دے کر چلتا کردیا۔ پھر ایک دن جنرل پاشا کو خیال سوجھا کہ کیوں نہ اس کی بیتابی کو اپنے لئے استعمال کر لیا جائے۔ اس نے نون لیگ کو اقتدار میں آنے سے قبل ہی دباؤ میں لینے کے لئے اس کا استعمال شروع کردیا اور یہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ بالآخر وہ گھڑی آیا چاہتی ہے جب وزارت عظمیٰ ورلڈکپ کا صلہ بن کر اس کی جھولی میں آگرے گی۔ مگر اندر سے شاید پاشا کو بھی اس کی شکل بالکل پسند نہیں آئی تھی۔کیانی اور پاشا نے الیکشن میں واردات نہ کی نتیجہ یہ کہ قوم نے اسے ویسے بھی نہیں لانا تھا سو وہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔ نشئی آدمی کا یہ بڑا مسئلہ ہے کہ وہ ایک بل سے بار بار ڈسا جاتا ہے۔ جنہوں نے اسے 2013ء کے لئے استعمال کیا تھا وہ سال بعد پھر اس کے پاس پہنچ گئے اور کہا
"اچھا چلو موڈ ٹھیک کر لو ! ہم تمہیں وزیر اعظم بنانے لگے ہیں بس تم نواز شریف کے پیچھے پڑ جاؤ !”
یہ نواز شریف کے پیچھے پڑ گیا مگر یہ جانتا نہیں کہ وزیر اعظم وہ اسے اس بار بھی نہیں بنائیں گے کیونکہ نشئی آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی خطاب کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ
"دیکھو ! یو این سیکریٹری جنرل کی پینٹ گیلی ہوگئی ہے !”
ٹرمپ جیسا شرارتی صدر اسے اتنی دیر کے لئے انتظار گاہ میں بٹھا سکتا ہے جتنی دیر کوکین کا نشہ اترنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ نتیجتا وہ ملاقات میں کیا کچھ بتا آئے گا یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ جاپانی وزیر خاجہ کو مکہ مار سکتا ہے اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو گارڈ آف آنر کے دوران دھکا دے سکتا ہے۔ اور تو اور وہ پاکستان کے دورے پر آنے والی کروشیا کی صدر سے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ
"آپ سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ٹھرنے کے بجائے بنی گالہ میں قیام فرمائیں”
سو آپ ہی بتائے کہ وزارت عظمی اور پانچ سٹریٹیجک وزارتوں کے لئے "سیکیورٹی کلئرنس” دینے والے قومی ادارے ایسے شخص کو وزیر اعظم بننے دیں گے ؟ نہیں وہ ایسا نہیں کریں گے ! انہوں نے اسے جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کرنا تھا سو کر لیا۔
اسٹیبلیشمنٹ کو ایک ہنگ پارلیمنٹ اور اس کے نتیجے میں ایک کمزور مخلوط حکومت درکار ہے۔ جس کا وزیر اعظم ایک "کٹھ پتلی” ہو۔ جب تک وہ کٹھ پتلی اشاروں پر ناچتی رہے یہ اس سے کام لیتے رہیں اور جوں ہی وہ پر نکالنے کی کوشش کرے تو یہ اس کی کسی اتحادی بیساکھی کو کھینچ کر اسے گرا دیں اور ملک پر طویل ایمرجنسی یا قومی حکومت نامی غیر منتخب ڈھکوسلہ مسلط کردیں۔ آپ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آپ کا مقابلہ کسی مافوق الفطرت مخلوق سے نہیں بلکہ آپ جیسے انسانوں سے ہی ہے۔ انہوں نے اپنی گیم تیار کی ہے تو آپ بھی اپنی گیم سے انہیں ناک آؤٹ کر سکتے ہیں۔ وہ صرف تین لاکھ ستر ہزار ہیں اور آپ اکیس کروڑ۔ مقابلہ نواز شریف اور عمران خان کے بیچ نہیں بلکہ اسٹیبلیشمنٹ اور نواز شریف کے بیچ ہو رہا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کے پاس ہماری دی ہوئی طاقت کا ناجائز استعمال ہے جبکہ ہمارے پاس ہمارے ووٹ کی وہ ایک پرچی جو اس ایک قطرے جتنی طاقت رکھتی ہے جو دوسرے قطروں سے مل کر دریا کا روپ دھار لیتا ہے۔ آپ کی ووٹ کی پرچی کا حرکت میں آنا نہایت ضروری ہوچکا ہے۔ آپ کی یہ پرچیاں سیلاب کے موسم میں منعقد ہوتے اس انتخاب میں ووٹوں کا وہ سیلاب لا سکتی ہیں جس میں جنرل فیض حمید کی سازش کا ہر تنکہ اور ثاقب نثار کے چوغے کا ہر تار بہہ سکتا ہے۔
یاد رکھئے جب مارجن بھاری ہوتا ہے تو نتیجہ بدلنا ممکن نہیں رہتا۔ اپنا ووٹ ہر حال میں پول کیجئے۔ اور دنیا کو دکھا دیجئے کہ نہ تو ہم نشئیوں کو اقتدار دینے کے قائل ہیں، نہ ہماری وزارت عظمیٰ کسی ورلڈکپ کا صلہ ہوتی ہے اور نہ ہی ہم اب وہ قوم ہیں جو شہید فوجی سپاہیوں کی عقیدت میں جرنیلوں کے ہاتھوں استعمال ہوجایا کرتی تھی۔ ہم سپاہی کی عظمت کے آج بھی قائل ہیں۔ ہم اس مٹی کو آنکھوں کا سرمہ بنانے کے لئے آج بھی تیار ہیں جس پر ہمارے شہید سپاہی کا قطرہ خون گرا ہو لیکن ہم کارپوریٹ جرنیلوں کو خون کے ان قطروں کی سیاست کے بازار میں قیمت نہیں لگانے دیں گے۔ ہم اس بار صرف ووٹ کی عزت کے لئے ہی نہیں بلکہ شہید سپاہی کے خون کی حرمت بحال کروانے کے لئے بھی میدان میں ہیں۔ وہ حرمت جسے جرنیل سیاسی مداخلت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کل گھر سے نکلئے اور پولنگ سٹیشن کو ووٹوں کا وہ سرچشمہ بنا دیجئے جو جرنیلوں کی حسرتوں کو بہا لے جائے !