فوج شادی ہالز کیوں چلا رہی ہے؟ جسٹس گلزار احمد
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں فوجی مقاصد کیلئے حاصل کی گئی زمین پر کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے پر ایک بار پھر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے ۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کنٹونمنٹ بورڈز میں عسکری اداروں کی جانب سے کمرشل تعمیرات کے مقدمے میں عدالتی بنچ نے اٹارنی جنرل، تمام کنٹونمنٹ بورڈز کے چیف ایگزیکٹوز اور منتخب چئیرمینز کو طلب کر لیا ہے ۔ عدالت نے ائر پورٹ سیکورٹی فورس، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پی آئی اے، سول ایوی ایشن سمیت تمام متعلقہ اداروں کے سربراہان کو بھی پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے 2 ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی ہے ۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے تجاوزات خاتمے کے سلسلے میں کارساز، شاہراہ فیصل، راشد منہاس روڈ پر قائم تمام شادی ہالز گرانے کا حکم دیا ۔ عدالت نے گلوبل مارکیٹ سمیت کنٹونمنٹ ایریاز میں تمام سنیماز، کمرشل پلازے اور مارکیٹس گرانے کا بھی حکم دیا ہے ۔
مقدمے کی سماعت دوران جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا فوجیوں کا کام شادیاں کرانا ہے، فوج کو کیا ہو گیا ہے، کن کاموں میں پڑ گئے, جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ایک میجر بیٹھ کر مرضی کے فیصلے کرتا ہے، شاہراہ فیصل پر دیواریں گرانے میں مشکل اس لیے پیش آئی کیونکہ وہ ایک میجر کی خواہش پر بنی تھیں ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا ڈی ایچ اے والے سمندر پر بھی سوسائٹی بنا کر اسے امریکہ سے ملانا چاہتے ہیں، وفاقی نہ صوبائی یہاں حکومت ڈی ایچ اے والے کر رہے ہیں ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ لاہور میں تو ڈی ایچ اے نے اتنی عمارتیں بنا ڈالیں بھارت تک جا پہنچے ہیں، کیا ان کا کام یہی رہ گیا ہے، ڈی ایچ اے والے سمندر کو بھی بینچ رہے ہیں ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ان کا بس چلے تو یہ سڑکوں پر بھی شادی ہالز بنا ڈالیں، نیوی اور ائیرفورس کے اسلحہ کے قریب شادی ہالز بن رہے ہیں، مہران بیس جہاں حملہ ہوا وہاں بھی شادی ہالز چل رہے ہیں، اسلحہ ڈپو کے قریب کس طرح شادی ہالز بن سکتے ہیں, یہ کر کیا رہے ہیں ۔