متفرق خبریں

تعلیم و تحقیق کی پستی کا سفر ہے، ہود بھائی

فروری 24, 2019 5 min

تعلیم و تحقیق کی پستی کا سفر ہے، ہود بھائی

Reading Time: 5 minutes

عابد خورشید

معروف ترقی پسند پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کہا ہے کہ سر سید احمد خان نے آم کھانے کو غیر اسلامی کہا لیکن بعد میں وہ جدید تعلیم کے بڑے مبلغ بنے، ہمارے کھلاڑی ملک کے وزیراعظم بن گئے لیکن ہم کوئی سائنسدان پیدا نہ کر سکے۔

اسلام آباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیراہتمام ”روایتی اور جدید تعلیم’ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کہا کہ ہالینڈ کی کل آبادی صرف اٹھارہ ملین ہے اور اس کے قدرتی وسائل بھی نہ ہونے کے برابر ہیں مگر اس کی کل مجموعی پیداوار پاکستان سے نو گنا زیادہ ہے۔ ان کی ترقی کی بڑی وجوہات سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران اور بھارت ہم سے کم تعلیم پر خرچ کرتے ہیں لیکن ہم کوئی نتیجہ نہیں دے سکے۔ ہم نے کرکٹ، سکواش اور دیگر کھیلوں اور میڈیکل کے شعبے میں ترقی کی یہاں تک کہ ایک کھلاڑی وزیراعظم بھی بن گےمگر سائنس کے میدان میں ہم صفر ہیں ۔ایک بھی نامور ریاضی دان نہ پیدا کر سکے ۔

پرویز ہود بھائی کے مطابق پاکستان سائنس سے خالی ہے، اس کے سائنسی اداروں میں صفر کام ہوتا ہے، ہمارے ہاں تحصیل علم کی بات تو ہوتی ہے لیکن تخلیق علم کی نہیں۔ ہمارے ہاں جو سائنس پڑھائی جاتی ہے وہ مذاق ہے۔

سندھ کی ایک نصابی کتاب میں نظریۂ ارتقا کو مضحکہ خیز قراردیا گیا ہے، ہمارے نوے فی صد پروفیسر انڈین انسٹی ٹیوٹس آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لینے کی قابلیت بھی نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں 1981 تک سائنس اور مذہب الگ الگ تھے۔

لارڈ میکالے نے جب 1835 میں تعلیمی اصلاحات کا اعلان کیا تو بنگال کے آٹھ ہزارمولویوں نے اس کے خلاف عرضی لکھی تھی جبکہ ہندوؤں نے ان کا خیر مقدم کیا تھا۔

میرے ساتھ بحث کرتے وقت مولانا احترام الحق تھانوی نے ٹی وی پر کہا تھا کہ دنیا کے بڑے بڑے سائنس دان اپنی لیبارٹریوں میں جانے سے پہلے چھپ کر قرآن پڑھتے ہیں جبکہ وزارت اطلاعات کے ایک سیکرٹری نے مجھے کہا کہ ساری سائنس قرآن میں موجود ہے ۔

انہوں نے کہا پاکستان کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ادارے ناکارہ ہیں اور حالات اتنے بدتر ہیں کے ہمارے سائنسی نانغے انڈیا کے معروف سائنسی ادارے میں گریجویشن میں بھی داخلہ لینے کے قابل نہیں۔

ہود بھائی نے کہا کہ پاکستان میں سائنس کے شعبے میں صرف چند ہی نام ہیں جبکہ بیرون دنیا میں ہم نہ ہونے کے برابر ہیں، دوسری طرف ہمسایہ ملک انڈیا کے سائنسدان دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں اور اداروں میں موجود ہیں ۔

سامعین کو دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں چند سال قبل سائنسی لیبارٹری سرن میں گیا تو ایک دن وہاں ایک معروف ایکسلیٹر فزیسٹ سے ملاقات ہوئی، جب میں نے اپنا تعارف کونٹوم فزیسٹ کے بطور پر کرایا تو وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ کیا پاکستان میں بھی فزیسٹ ہیں؟

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کہا کہ اعلی تعلیم کا بحران ایک طرف ہے جبکہ سکولوں اور کالجز کا بحران دوسرا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے تیس فیصد بچے سکول نہیں جاتے اور جو جاتے وہ کیا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے بعد غیر ضروری طور پر مذہبی تعلیم کو ہر تعلیم میں داخل کر دیا گیا اور ظلم یہ ہوا کہ بیالوجی کی درسی کتب کے پہلےلکھا جاتا ہے کہ ان تھیوریز کو پڑھ لییں لیکن اعتبار مت کریں ۔ یہ مثال بھی عام ہے کہ دو رکشے آپس میں ٹکرا بھی جائیں تو کار نہیں بنتی، جب ایسے احمق لوگ کتابیں لکھیں گے تو علم، تحقیق اور ایجاد کیا ہو گی اور نتیجے میں آج کی نسل ہی پیدا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنے کے باوجود طلبا کسی بھی جدید شعبے میں بنیادی علم بھی حاصل نہیں کر پا رہے جس کا بہت دکھ ہے۔

پرویز ہود بھائی نے تاریخ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں محمد بن قاسم کی فتوحات تک سائنسی علوم کا کوئی رجحان نہ تھا لیکن بعد میں نویں صدی میں مسلمانوں نے سائنس میں کمالات کیے، وہ ایک بہترین دور تھا جو گزر گیا لیکن اس کا اثر برصغیر تک نہ پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ مغلیہ دور میں تعلیم کو نظر انداز کیا گیا البتہ آرکیٹیکچر میں ملکہ حاصل کیا جو واقعی ایک قابل فخر بات تھی مگر مغلوں کے درباروں میں تجسس نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ مغل دور کے اختتام کے بعد سب سے زیادہ مسلمان زیر عتاب آئے۔ مسلمانوں کے نزدیک عربی، فارسی اور اردو کی انہیں ضرورت ہے اور ریاضی وغیرہ اشرافیہ کے کام نہیں۔ جب لارڈ میکالے نے انگریز سامراج کے ظلم اور انسانی قتل کے بعد جدید تعلیم کیلے سکولز کھولنے پر مدد کی پیشکش کی تو مسلمانوں نے مخالفت کی اور ہندوؤں نے اس عمل کو خوش آمدید کہا اور جدید سکول کھولے جس سے مسلمانوں اور ہندوؤں میں فرق بڑھتا گیا۔

ہود بھائی نے کہا کہ دو قومیں انگریز کے بعد بنیں پہلے کوئی مسئلہ نہ تھا، رہی سہی کسر مردم شماری census میں نکل گئی جب اسی حساب سے ملازمتیں ملنے لگی۔ مسلمان برے حالت میں تھے جس کی بروقت تشخیص سر سید احمد خان نے کی حالانکہ سر سید احمد خان کٹر مذہبی تھے لیکن وہ علمی جستجو میں مگن رہے۔ انہوں نے اپنے ابتدائ لی دور میں زمین ساکت ہے اور آم کھانا اسلام کے خلاف ہے پر جیسےمقالے لکھے۔ آم سے متعلق ۳۵ صفحات کا مقالہ لکھا اور بتایا کہ جو مسلمان آم نہیں کھائے گا تو فرشتے اس کے پاؤں چومیں گے لیکن سر سید احمد خان بعد میں بدلے اور مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے حصول کی تاریخی جدوجہد کی ۔

پاکستان کو تعلیمی طور پر کیسے بدل سکتے ہیں کے حوالے سے ہود بھائی نے کہا وہی کرنے کی ضرورت ہے جو باقی دنیا کرتی ہے کہ بچوں کو سوچنے اور سمجھنے کی تعلیم دیں، آپ بے شک مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دیں، اردو پڑھائیں اور ہائر سٹڈیز انگریزی میں، لیکن سوچنے، سمجھنے کی طاقت دیں ورنہ شاہ دولے کے چوہے ہی پیدا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب تو مشرق وسطی میں بھی ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان نہیں کھپ رہے مستقبل مزید بھیانک ہوگا۔ سکولوں میں او لیول تک اساتذہ بہتر ہیں مگر اے لیول بہت سے بڑے سکول نہیں کرا رہے کیونکہ اساتذہ ہی نہیں مل رہے، یہ ایک الگ المیہ ہے۔ حالات بدلنے کیلے نصاب کی تبدیلی، اساتذہ کی ازسر نو تعلیم اور نظام امتحانات بدلنا ہو گا۔ ہمیں سائنس اور مذہب کو الگ کرنا ہو گا کیونکہ نہ تو اس سے مذہب کو فائدہ ہو رہا ہے اور نہ سائنس پر کوئی اثر پڑ رہا ہے۔

لیکچر سننے کے لیے سامعین کی بڑی تعداد ہال میں موجود تھی، نشستیں بھی کم پڑ گئیں، کحچھ لوگ دروازے میں کھڑے لیکچر سن رہے تھے۔

سوال اور جواب کی نشست میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں نے بڑے کام کیے، ابن الہشم، ابن سینا، الکہندی، ابن خلدون اور دیگر بڑے نام تھے مگر ان کے ساتھ اس وقت اپنوں نے ہی جبر و ظلم کیے اور ان کی تعلیمات کو اپنے عقائد کے خلاف سمجھا بلکہ عیسائیت نے تو اپنے سائنسدانوں اور مفکرین کے ساتھ ہم سے بھی برا سلوک کیا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر چیز اور سائنسی معلومات کو قرآن سے ڈھونڈنا اور مسلمانوں کا ہی تاریخ پر احسان سمجھنا مناسب رویہ نہیں کیونکہ تاریخ میں بابل، چینی، ہندی، یونانی اور پھر مسلمانوں کی باری آتی ہے۔ اب دنیا کے نوے فیصد سائنسدان مذہبی عقائد کی ضرورت نہیں سمجھتے۔


ایک سوال کے جواب میں پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ ترکی تعلیم اور تحقیق کے میدان میں اسلامی ممالک میں سب سے آگے ہے کیونکہ وہاں کمال اتاترک کی پالیسیاں جاری رہی مگر ہم آٹھ تعلیمی پالیسیاں دینے کے باوجود وہیں کھڑے ہیں اور پستی کی طرف گامزن ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے