ثاقب نثار کا فیصلہ الٹا دیا گیا
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ کے تین ججوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ایک فیصلے کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے ۔
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق لاہور میں عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس کے فیصلے کو واپس لے لیا ہے ۔
پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کے سروس اسٹرکچر پر لیے گئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ازخودنوٹس کو نمٹاتے ہوئے سپریم کورٹ نے ڈاکٹر سعید اختر کے بیرون ملک جانے پر پابندی کو ختم کر دیا ہے۔
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق عدالت نے حکم نامے میں کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس کے تین جون 2018اور 13ستمبر 2018کے آرڈرز کو واپس لیا جاتا ہے جن کے تحت ڈاکٹر سعید کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہسپتال کے انتظام کو چلانے کے لیے بنائی گئی عبوری کمیٹی کو فوری تحلیل کیا جاتا ہے ۔
پاکستان ٹوئنٹی کے پاس دستیاب آرڈر کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دلائل کے دوران جب وکیلوں نے ہسپتال کے لیے بنائے گئے قانون مجریہ 2014 کی شقوں چھ اور آٹھ کی جانب دلائی تو عدالت نے جائزہ لینے کے بعد فوری طور پر عبوری انتظامی کمیٹی کو ختم کرنے کی ہدایت کی ۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ہسپتال کے امور میں کرپشن کے معاملے پر جب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے حکام سے پوچھا گیا کہ تحقیقات کس کی شکایت پر شروع کی گئی تو بتایا گیا کہ ‘سورس رپورٹ’ میں الزامات سامنے آئے تھے جس پر تفتیش کی گئی ۔
عدالت نے کہا ہے کہ پنجاب اینٹی کرپشن محکمے کی جمع گرائی تحقیقاتی رپورٹ اور اس میں اخذ کیے گئے نتائج پر یہ عدالت کوئی تبصرہ نہیں کرتی کیونکہ اس سے جن افراد کے خلاف انکوائری کی گئی ان کا مقدمہ متاثر ہوسکتا ہے اور درخواست گزاروں کے وکلا نے اس عدالت کے اختیار سماعت، طریقہ کار اور اس رپورٹ پر سوال اٹھائے ہیں ۔
سپریم کورٹ ہدایت کرتی ہے کہ اس رپورٹ سے متاثرہ افراد متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں اور اپنی صفائی اور دفاع کا حق استعمال کریں ۔
عدالت عظمی نے لکھا ہے کہ اس تفتیش کا اور اس سے متاثر افراد کی شکایت کا متعلقہ فورم سپریم کورٹ کی کسی آبزرویشن سے متاثر ہوئے بغیر میرٹ پرجائزہ لے ۔
خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لے کر ڈاکٹر سعید اختر کی مختلف عدالتی سماعتوں کے دوران سخت سرزنش کی تھی اور ان کی تنخواہ پر سوال اٹھانے کے علاوہ ان کے خلاف اینٹی کرپشن کے محکمے کو انکوائری کا بھی حکم دیا تھا۔