پاکستان24 متفرق خبریں

’خود کش حملہ آور بنانے والا بری‘

مارچ 1, 2019 4 min

’خود کش حملہ آور بنانے والا بری‘

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے خودکش حملہ آور تیار کرنے کے ملزم کو آٹھ سال بعد الزامات ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا ہے جبکہ مبینہ ’خودکش حملہ آور‘ کی 52 مرتبہ عمر قید کو ایک بار عمر قید میں بدلنے کا حکم دیا ہے ۔

ٹرائل کورٹ نے خودکش حملہ آور تیار کرنے کے الزام میں 60 سالہ ’صوفی بابا‘ کو 52 مرتبہ پھانسی جبکہ خودکش حملہ کرنے والے 13 سالہ ’عمر فدائی‘ کو 4345 سال قید کی سزا سنائی تھی ۔

دونوں پر الزام تھا کہ انہوں نے سنہ 2011 میں ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور دربار پر خودکش حملے کرائے تھے جس میں 52 افراد ہلاک اور 74 زخمی ہوگئے تھے ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے صوفی بابا اور عمر فدائی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی ۔ عدالت کو پنجاب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ بہرام عرف صوفی بابا خودکش حملہ آور تیار کرتا تھا اور پکڑے گئے خودکش حملہ آور نے پولیس کو اس کے بارے میں بتایا جس کے بعد گرفتاری عمل میں آئی ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اعترافی بیان کے علاوہ پولیس نے کوئی شواہد اکھٹے کیے؟۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوفی بابا لوگوں کو جنت میں بھیجتا ہے تو خود کیوں نہیں جاتا؟ ۔
چیف جسٹس نے پنجاب کے پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود کش حملہ آور تیار کرنے والے کے خلاف پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔

عمرفدائی کے وکیل لائق سواتی نے بتایا کہ پولیس نے صرف اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے دربار پر حملے کے بعد آس پاس مزدوری کرنے والے افراد کو حراست میں لیا ۔

وکیل لائق سواتی نے پاکستان ٹوئنٹی فور کو بتایا کہ بہرام عرف صوفی بابا اس علاقے میں مچھر دانیاں فروخت کرتا تھا، پولیس نے اس کے ساتھ جن دیگر چار افراد کو حراست میں لیا تھا ٹرائل کورٹ نے ان کو بری کیا ۔ وکیل کے مطابق تیرہ سال کے بچے کو زخمی حالت میں گرفتار کرکے اسے عمر فدائی کے نام سے خودکش حملہ آور قرار دیا گیا ۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل سے پوچھا کہ 13 سال کا لڑکا دربار پر کیا کرتا تھا؟ اس کی رہائش کہاں تھی؟ اس بارے میں ٹرائل کورٹ کو مطمئن کیوں نہیں کیا گیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ لڑکے سے جیکٹ اور گرنیڈ بھی پکڑے گئے ۔

ملزم بہرام کے وکیل رفاقت شاہ کا کہنا تھا کہ پولیس نے صوفی بابا اور عمرفدائی کے نام و پتے غلط لکھے، صوفی بابا پانچ چھ برس سے اسی علاقے میں رہائش پذیر تھے ۔

وکیل لائق سواتی نے بتایا کہ عمر فدائی کے نام سے خودکش حملہ آور کے طور پر شناخت کیے گئے لڑکے کا اصل نام سید زمان ہے اور وہ کراچی کا رہائشی ہے جو دربار کے قریب چھلیاں بیچتا تھا ۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ خود کش حملہ کرنے والا درحقیقت خود نشانہ بنتا ہے ۔

سماعت کے بعد وکیل لائق سواتی ایڈووکیٹ نے اس نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘سخی سرور دربار پر دھماکہ تین اپریل 2011 کو ہوا تھا اور پولیس نے دھماکے کی جگہ سے 425 میٹر دور زخمی لڑکے کو حراست میں لیا جس کے دونوں بازو ضائع ہوگئے تھے۔’


وکیل نے کہا کہ پولیس نے اوپر سے آنے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے زخمی بچے کو عمر فدائی کا نام دے کر خودکش حملہ آور قرار دیا اور کہا کہ یہ لاوارث ہے، حالانکہ اس کا والد سید قمر زمان کراچی کا رہائشی ہے ۔
وکیل کے مطابق سید زمان کا والد کراچی میں ہے، انہوں نے وزارت داخلہ اور آئی جی کو خطوط لکھ کر اپیل بھی کی مگر آئی جی پہلے ہی خودکش حملہ آور قرار دے چکے تھے اس لیے کچھ نہ ہوسکا ۔

وکیل لائق سواتی نے بتایا کہ پولیس نے سید زمان کے بڑے بھائی کو بھی حراست میں لیا تاکہ وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش ہو کر حقیقت نہ بیان کردے، سیدزمان کا ٹرائل مکمل ہونے تک اس کے بڑے بھائی کو سات ماہ تحویل میں رکھا گیا ۔
وکیل کے مطابق سید زمان کے والدین بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ طالبان کے خوف سے سنہ 2007میں شمالی وزیرستان سے کراچی منتقل ہوئے تھے ۔ وکیل نے کہا کہ ‘یہ تو خود مزار والے تھے۔’

وکیل لائق سواتی نے کہا کہ ٹرئل کورٹ نے جنوری سنہ 2013میں صوفی بابا بہرام کو خودکش حملہ آور تیار کرنے کے جرم میں 52 بار سزائے موت اور سیدزمان کو 52مرتبہ عمر قید سنائی جو مجموعی طور پر 4345برس کا عرصہ بنتا ہے ۔
وکیل نے بتایا کہ یہ دونوں اس وقت ساہیوال جیل میں قید ہیں اور ان کے لواحقین کے پاس سپریم کورٹ آنے کا کرایہ بھی نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے یہ مقدمہ ایک اخباری خبر میں تفصیل دیکھنے کے بعد مفت لڑنے کا فیصلہ کیا۔’

عدالت نے صوفی بابا کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر آٹھ سال بعد بری کرنے کا فیصلہ دیا جبکہ ’عمر فدائی‘ کی 52 مرتبہ عمر قید کو ایک بار عمرقید میں تبدیل کردیا ۔ عدالت نے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم نہیں کیں جس کی وجہ سے مجرم کو 25 سال قید گزارنا ہوں گے ۔

وکیل کا کہنا ہے کہ نو برس قید گزارنے کے بعد عمر فدائی کی سزا چودہ برس مکمل کرنے پر پوری ہو جائے گی ۔

وکیل لائق سواتی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ فوجداری مقدمات کے اتنے ماہر ہیں کہ فائل دیکھ کر کیس سمجھ جاتے ہیں اس لیے انہوں نے صوفی بابا کو بری اور سید زمان کی 52 مرتبہ عمرقید کو ایک بار میں تبدیل کیا ۔ تاہم وکیل نے کہا کہ ‘دکھ یہ ہے کہ دھماکہ کرنے والے اصل مجرم بچ گئے ہیں۔’

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے