کالم

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں: جاوید جبار

مارچ 2, 2019 4 min

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں: جاوید جبار

Reading Time: 4 minutes

میرے نہایت مخلص بھائی شعبہ ابلاغ عامہ (Mass communication ) اردو کالج کے پروفیسر سلیم مغل نے اپنے بیٹے اسامہ اور فاطمہ کی شادی کی تقریب میں میرے کراچی یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی کے دوست، پاکستان کی میڈیا ( الیکٹرونک،پرنٹ اور اشتہارات ) کی صنعت کی نامور شخصیت، سابق وفاقی وزیر اطلاعات، مصنف اور ممتاز دانشور محترم جاوید جبار اور ان کی اہلیہ کی شرکت کے حوالے سے یہ لکھا کہ ’جاوید جبار میڈیا کے شعبے میں ان کے رول ماڈل ہیں یوں تو بہت قربت بہت رابطے مگر ریڈیو کی سو سالہ تقریبات میں پہلی بار ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تب ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سمیت ان کی محبت اور شفقت کا اندازہ ہوا“ اس پر میرے ایک اور جگری دوست مشہور صحافی، مصنف اور شعبہ ابلاغ عامہ کراچی یونیورسٹی کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد زبیری نے جاوید بھائی کے بارے میں اس جملے کا اضافہ کر کے انہیں خراج تحسین پیش کیا ’پاکستان کی میڈیا کی دنیا میں جاوید جبار سے بہتر محب وطن اور صاحب بصیرت کوئی فرد نہیں “ سلیم بھائی اور ڈاکٹر نثار زبیری کے جاوید جبار کے بارے ان خوب صورت کلمات نے آج سے 52 سال قبل کی میری کراچی یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ جس کی وجہ سے مجھے بھی جاوید جبار کے بارے میں اپنے تاثرات لکھنے کا موقع ملا جو آپ کے پیش خدمت ہے۔

‎جاوید جبار بھائی، میرے یونیورسٹی فیلو ہیں، وہ مجھ سے دو سال سینئیر تھے لیکن ان سے اسی زمانے میں اس حقیقت کے باوجود دوستی کا تعلق قائم ہوگیا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریاتی اختلافات رکھتے تھے اور ایک دوسرے کے مخالف کیمپ میں تھے یہ تعلق میرے اسی طالب علمی کے دور ہی میں اس وقت مزید بڑھ گیا،جب مجھے روزنامہ جنگ میں ایک صحافی کی حیثیت سے شامل ہونے کا موقع ملا۔جاوید بھائی اس زمانے میں بائیں بازو کے اہم طالب علم لیڈر اور انگریزی کے شعلہ بیان خطیب تھے۔ ہماری اس دوستی اور تعلق میں اس نظریاتی اختلاف رائے کی وجہ سے کبھی فرق واقع نہیں ہوا اور ایک دوسرے سے ہمیشہ احترام کے ساتھ پیش آتے رہے۔ وہ مجھے کتنی اہمیت دیتے تھے اس کو سمجھانے کے لئے میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جو آپ کے لئے معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ جاوید بھائی کی فراخ دلی اور رواداری کی ایک عمدہ مثال بھی ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے۔

‎آپ کو یقینی طور ہر علم ہوگا کہ جماعت اسلامی کے مرحوم سکریٹری نشرواشاعت محترم شمیم احمد کی ان تھک محنت کے بعد سید ابوالاعلی مودودی رح کی زندگی کے حالات اور اسلامی خدمات پر اردو میں ایک ڈاکومینٹری بنی تھی جو اب بھی مارکیٹ میں دستیاب اور انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔میں نے شمیم بھائی کو آمادہ کیا کہ اس کو انگریزی میں میں بھی پیش کیا جائے انہوں نے اس کام کی ذمہ داری مجھ پر ہی ڈال دی۔ میں نے پہلے اس کے اسکرپٹ کا (اس وقت) ڈان کے محترم خالد رحمن سے انگریزی میں ترجمہ کرایا جس کی نظرثانی( راجہ بھائی )ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری مرحوم سے کرائی۔ اب مرحلہ یہ تھا کہ اس کے اسکرپٹ اور مولانا کے اقتباسات کو کس کی آواز میں ریکارڈ کرایا جائے، شمیم بھائی پریشان تھے اور یہ ذمہ داری بھی میرے سپرد کر دی۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان شااللہ یہ کام بھی ہو جائے گا۔ میرے ذہن میں اس اہم کام کے لئے اچانک جاوید جبار بھائی اور جیو کے پریسیڈینٹ عمران اسلم صاحب کا نام آئے۔ چنانچہ میں نے جاوید بھائی کو فون کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام کیلئے ملنا ہے انہوں مجھے فوری طور پر گھر بلا لیا جہاں میں نے اپنا مقصد بیان کیا اور کہا آپ مولانا مودودی رح کی اس ڈاکومنٹری میں ان کے فرمودات کو اپنی آواز میں ریکارڈ کرائیں گے تو انہوں نے نا صرف میری اس درخواست کو قبول کیا بلکہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ عارف بھائی آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ مولانا مودودی کے نظریات کے مخالف کیمپ میں رہا ہوں اور ان کی مسلمہ علمی قابلیت اور اعلی مقام کے باوجود ان سے اختلاف رائے رکھتا ہوں لیکن میں ان کے لئے ان کی آواز کو ریکارڈ کرانا اپنے لئے کسی بڑے سے بڑے اعزاز سے کم نہیں سمجھتا۔ یہ میرے لئے بڑے فخر کی بات ہو گی،میں اس کے لئے بخوبی تیار ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ہمارے مقررہ وقت پر یہ ریکارڈنگ کرائی اور شمیم بھائی جس کام کو ناممکن سمجھتے تھے وہ اس طرح بڑی آسانی کے ساتھ ہوگیا۔ یہ جاوید بھائی کی میرے ساتھ دوستی کے احترام کے ساتھ ساتھ ان کی وسیع القلبی، فراخ دلی اور باہمی رواداری کا بھی ایک ثبوت تھا۔ان کے اس تعاون کی وجہ سے میرے دل میں ان کے لئے محبت پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی جو ہمیشہ یاد رہے گی۔ اسی طرح جب میں نے عمران اسلم صاحب سے درخواست تو انہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ریکارڈنگ کے لئے رضامندی کا اظہار کر دیا اور ایک ساتھ ریکارڈنگ بھی کرادی۔انگریزی میں یہ ڈاکومنٹری بھی اب مارکیٹ میں مل جائے گی۔ ان دونوں کا یہ احسان مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ اللہ تعالی ان دونوں کو ایمان اور تندرستی کے ساتھ عمر دراز عطا کرے۔

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے عارف الحق عارف نے 1967 میں روزنامہ جنگ کراچی سے صحافت کا آغاز کیا، جہاں 2002 تک وابستہ رہے، اسی سال جیو ٹی وی سے وابستہ ہوئے جہاں بطور ڈائریکٹر 18 سال سے زائد عرصہ گزارا، عارف الحق عارف کی صحافت سے 52 سالہ وابستگی کا یہ سفر بڑا دلچسپ ہے ۔ پاکستان 24 میں ’’بڑے لوگوں کی سنہری یادیں “ کے اس تحریری سلسلے میں آپ کو نامور لوگوں کی متاثر کن کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے