ہمارے ایف 16 انڈیا کے خلاف استعمال کیے؟ امریکہ
Reading Time: 2 minutesعفت حسن رضوی
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ معاہدے کے خلاف امریکی ساختہ ایف 16 طیارے کے بھارت کے خلاف مبینہ استعمال کے الزامات کی جانچ کرے گا ۔
اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اس حوالے سے معلومات حاصل کررہا ہے کہ آیا پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر بھارت کے خلاف امریکی جنگی جہاز ایف سولہ کا استعمال کیا یا نہیں، پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف اگر مبینہ طور پر ایف سولہ طیارے استعمال کیے گئے تو یہ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
پاکستانی فضائیہ کے مطابق نے سن دوہزار چھ میں پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت امریکہ نے تین قسطوں میں اٹھارہ ایف سولہ سی دی بلاک باون ، طیارے پاکستان کے حوالے کیے جبکہ دو طیارے ایف سولہ بلاک پندرہ مڈ لائف اپ گریڈ تھے جنہیں ٹیکنالوجی اپ گریڈ کے بعد پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ ان طیاروں کو امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن ایر ناٹکس نے بنایا ہے ۔
پاکستان کی فضائی فورس کے ایک سابق ائیر کموڈور نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ امریکی حکومت کی جانب سے امریکی ساختہ ہتھیاروں کے محدود استعمال پر کچھ شرائط رکھی جاتی ہیں ، ایف سولہ طیاروں کے حوالے سے بھی کچھ یوزر ایگریمنٹ (استعمال کرنے والے کا معاہدہ) میں ان طیاروں کے استعمال پر شرائط موجود ہونگی، تاہم غالب خیال یہی ہے کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خلاف ایف سولہ طیارے نہیں بلکہ چین کے تعاون سے تیار شدہ جے ایف سیونٹین تھنڈر جیٹ استعمال کیا ہے جو کہ دہشت گردی کی خلاف آپریشن ضرب عضب میں بھی کامیابی سے استعمال کیا جاچکا ہے۔ پاکستان ایرو ناٹیکل کمپلکس اور چین کی چینگڈو ائیر کرافٹ کارپوریشن کے مشترکہ کاوش سے بننے والا جے ایف سیونٹین تھنڈر فضا سے فضا میں نشانہ بنانے والے میڈیم رینج میزائل لیجانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ادھر پاکستانی فضائیہ کا نشانہ بننے والا بھارتی جنگی جہاز مگ اکیس پہلے ہی حادثات کے باعث بہت بدنام ہے جسے بھارتی پائلٹ عرف عام میں اڑتے ہوئے کفن کہتے ہیں۔ عسکری ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مگ اکیس کا موازنہ جے ایف سیونٹین تھنڈر یا پھر امریکی ساختہ ایف سولہ جیٹ سے نہیں کیا جاسکتا ، مگ اکیس سوویت یونین کے زمانے کے ڈیزائن کردہ طیارے ہیں جو کہ انیس سو ساٹھ سے بھارتی فضائیہ کے زیر استعمال ہیں ، جبکہ مگ اکیس سے پیشہ ورانہ تربیت کرنے والے بھارتی پائلٹس کی ہلاکتوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ بھارت کی جانب سے جس اے ایم آئی ایک سو بیس میزائل کے ٹکڑے بطور ثبوت دکھائے گئے ہیں وہ فضا سے فضا میں مار کرنے والا میڈیم رینج میزائل ہے جو کہ جدید ٹیکنالوجیکل ایڈوانس طیاروں کے ذریعے ہی فائر کیا جاسکتا ہے۔ تاہم پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں ان بھارتی دعووں کی تردید کی ہے۔
خیال رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی دوہزار چودہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے وزیر دفاع نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ بھارتی فضائیہ کے روسی ساختہ مگ طیارے 872 سے نصف رہ گئے ہیں، چار سو سے زائد مگ طیارے حادثات کا شکار ہوچکے ہیں جن میں دو سو سے زائد جانیں گئی ہیں۔