سنجرانی کا ’جادو‘ کیسے چلا؟
Reading Time: 2 minutesپاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں اپوزیشن کو بھاری اکثریت کے باوجود سینیٹ چیئرمین کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد پر ہزیمت اور سبکی اٹھانا پڑی ہے۔
سینیٹ کے کل ارکان کی تعداد 104 ہے جن میں سے مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار نے منتخب ہونے کے باوجود تاحال حلف نہیں اٹھایا۔ یوں اس وقت ایوان میں 103 سینیٹرز بیٹھتے ہیں۔
جمعرات کو جب اپوزیشن کی جانب سے صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی تو اپوزیشن کے 64 سینیٹرز نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر اس کے حق میں ووٹ دیا۔
قرارداد کی کامیابی کے بعد عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی اور ایوان میں خفیہ رائے دہی کے ذریعے ووٹنگ کے عمل کا آغاز کیا گیا۔
ایوان میں حکومت اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد 36 ہے جبکہ جماعت اسلامی کے دو سنییٹرز ہیں۔
صادق سنجرانی کے حق میں 45 ووٹ پڑے جس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے نو سینیٹرز نے ان کو ووٹ دیا۔
سنجرانی کی جیت میں ان پانچ ووٹوں نے اہم کردار ادا کیا جو مسترد ہوئے۔
سنجرانی کے خلاف تحریک کی کامیابی کے لیے 53 ووٹوں کی ضرورت تھی جبکہ ان کے خلاف 50 ووٹ پڑے۔ اس طرح وہ تین ووٹوں سے بچ گئے۔
اس وقت مسلم لیگ ن کے سینیٹرز چودھری تنویر اور حافظ عبدالکریم ملک سے باہر ہیں۔ اس طرح دو ووٹ یہ بھی اپوزیشن کے کم ہوئے۔ اسحاق ڈار کے حلف نہ اٹھانے کا بھی اپوزیشن کو ہی خمیازہ بھگتنا پڑا۔
تحریک عدم اعتماد سے بچ نکلنے پر جب صادق سنجرانی سے رپورٹرز نے جادو کا پوچھا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کیا۔ ان سے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں ان کو کن سینیٹرز نے ووٹ دے کر بچایا تو انہوں نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا اور اپنے چیمبر میں چلے گئے۔
مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی، اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سامنے اس وقت سب سے اہم معاملے ان 14 سینیٹرز کی نشاندہی ہے جنہوں نے صادق سنجرانی کو بچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
معروف ٹی وی اینکر ثنا بچہ نے ٹویٹ کیا کہ ’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صادق سنجرانی کی کامیابی، جمہوریت کا ہی فیض ہے۔‘
سوشل میڈیا پر ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سینیٹ میں ثابت ہوگیا کہ ملک کی پارلیمان میں ’اصل حکمرانوں‘ نے آدھی سے زیادہ اپنی کٹھ پتلیاں بٹھا رکھی ہیں۔