سپریم کورٹ: نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے مشہور نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی ہے جبکہ ریپ پر دی گئی موت کی سزا کو عمرقید میں تبدیل کر دیا ہے.
سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی موت کی سزا کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ان کو سزائے موت دیے جانے کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
تاہم عدالت نے نور مقدم کے ساتھ ریپ کا جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔
اسی طرح سپریم کورٹ نے نور مقدم کو اغوا کرنے کے الزام میں ظاہر جعفر کو دی گئی دس سال قید کی سزا کو کم کر کے ایک سال کر دیا ہے جبکہ عدالت نے نور مقدم کے ورثا کو مالی معاوضہ فراہم کرنے سے متعلق ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں شریک ملزمان یعنی ظاہر جعفر کے مالی جان محمد اور چوکیدار محمد افتخار کو دی جانے والی دس، دس سال کی سزائیں کم کر دی ہیں اور کہا ہے کہ اب تک یہ دونوں ملزمان جتنی بھی سزا کاٹ چکے ہیں، اُسے اتنا ہی تصور کیا جائے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ظاہر جعفر کی موت کی سزا برقرار رکھے جانے کے فیصلے کے بعد وہ تمام قانونی آپشن استعمال کر چکے ہیں اور اب واحد آپشن صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل کا ہے۔
یاد رہے کہ 27 سالہ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک مکان میں قتل کر دیا گیا تھا اور اسی روز پولیس نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کر لیا تھا۔
اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے 24 فروری 2022 کو نور مقدم کا قتل ثابت ہونے پر ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ریپ کے الزام کے تحت 25 سال قید بامشقت کی سزا سُنائی تھی۔
اُن کے دو ملازمین جان محمد اور افتخار کو اعانت جرم میں دس، دس سال قید کی سزا سُنائی تھی جبکہ ظاہر جعفر کے والدین سمیت دیگر نامزد ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔
مقامی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے اِس فیصلے کے خلاف ظاہر جعفر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ تاہم مارچ 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف اپیل ناصرف مسترد کر دی بلکہ ریپ کے جرم میں انھیں دی گئی 25 سال قید کی سزا کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا تھا۔
اب سپریم کورٹ نے بھی سزا کے خلاف ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔