طالبان کی واپسی:حقیقت یا فسانہ؟
Reading Time: 3 minutesناصر مغل
افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کامیابی کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ امریکی سفارت کار ذلمے خلیل زاد نے اختتام ہفتہ رات گئے مذاکرات کے 9ویں مرحلے کے بعداپنے ٹویٹ میں کہاکہ فریقین معاہدے کی دہلیز پرآگئے ہیں۔ زلمے کابل روانہ ہوگئے جہاں وہ افغان حکومت کوتفصیلات سے آگاہ کریں گے۔
معاہدے کاباقاعدہ اعلان اوردستخطوں کی تقریب جلد متوقع ہے جو دوحہ میں ہی ہوگی۔
افغانستان کی 19سال پرمحیط امریکہ،طالبان جنگ ختم ہونے کا وقت قریب آگیاہے،اس حوالے سے تاریخی معاہدے کا دنیابھرمیں انتظارکیاجارہاہے۔ مذاکرات کے دوران آنے والی اطلاعات سے لگتاہے کہ فریقین جامع معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ایک طرف امریکہ نے افغانستان انٹیلی جینس موجودگی کی شرط منوالی ہے اور طالبان کی طرف سے افغانستان کانام تبدیل کرنے کا مطالبہ ماناگیاہے۔دونوں ہی معاملات اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرحتمی معاہدے میں یہ باتیں شامل ہوئیں تویقینی طورپریہ طالبان اورامریکہ دونوں کے لیے خوش آئندسمجھوتہ ثابت ہوگا۔ تاہم اس امرپرابھی ابہام کی گردپڑ ی ہے کہ آیاواقعی ایساہواہے۔ کیوں کہ امریکی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ طالبان کا بہت بنیادی Essentialموقف تھا۔
امریکی صدرٹرمپ نے اس دوران یہ بھی کہاتھاکہ ٹائم لائن کے بغیر انخلا ہوگااورصورت حال کے مطابق اگلے اقدام کافیصلہ کیاجائے گا،فوری طورپرامریکی فوج کو 8600تک کم کردیاجائے گا۔
کچھ اطلاعات یہ بھی آئی تھیں کہ طالبان جنگ بندی پر مشروط آمادہ ہوئے ہیں یعنی جن علاقوں سے نیٹوفوج نکلے گی وہاں کسی امریکی یاغیرملکی ہدف مثلاً میڈیکل یاسفارتی مشن،این جی اوزوغیرہ پر حملہ نہیں کیاجائے گا۔
مذاکرات کاحالیہ دورجیسے جیسے آگے بڑھاامریکی حکام کی بے چینی میں بھی اضافہ ہوتاگیا۔پینٹاگان بھی سامنے آیااورچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے سیکرٹری آف ڈیفنس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ہم Withdrawکالفظ استعمال نہیں کررہے۔یہ تمام صو رت حال امریکی مخمصے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
امریکہ کے ارباب اختیاربالخصوص اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج افغانستان کے حوالے سے پریشانی کاشکار ہیں،اسے نظرآرہاہے کہ معاہدہ ہونے کے بعد حالات اس کے حق میں نہیں رہیں گے اوردنیااس معاہدے کو امریکی ناکامی سے ہی تعبیرکرے گی۔ اس چیزنے امریکی جرنیلوں کو مضطرب کررکھاہے،انہیں بے عزتی اوربدنامی تیزی سے اپنی طرف بڑھتی ہوئی نظرآرہی ہے۔کیوں کہ امریکی خارجہ پالیسی کااظہارمائیک پومپیونے حالیہ دنوں میں تواترسے کیاہے کہ افغانستان سے واپسی طے ہے،خودصدرٹرمپ نے بھی یہ بات کہی ہے کہ ہم ہمیشہ افغانستان میں نہیں رہ سکتے۔ جولائی کے اوائل میں ایک ٹی وی کوانٹرویومیں انہوں نے کہاتھاکہ فوج کاکہناہے افغانستان میں کچھ موجودگی رکھی جائے۔
حالیہ دنوں میں،جب مذاکرات جاری تھے اورمسلسل حوصلہ افزاخبریں آرہی تھیں،مغربی میڈیانے اس امرپربھی بحث کی کہ کیاطالبان دوبارہ اقتدارمیں آسکتے ہیں۔اس بارے میں شک نہیں کیاجاسکتاکہ طالبان کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
ویسے بھی افغانستان میں متعددعلاقوں پر انہی کا قبضہ ہے،اب جن علاقوں سے امریکی فوج نکلے گی،وہاں مکمل طورپرطالبان کاراج قائم ہوجائے گا کیوں کہ امریکہ کے خلاف ان علاقوں میں طالبان کوئی کارروائی نہ کرنے کا معاہدہ کرچکے ہیں اور کابل انتظامیہ کے خلاف لڑائی کرنے میں وہ آزادہوں گے،وہ یہ بات کہہ بھی چکے ہیں کہ افغان فوج کے خلاف جنگ جاری رہے گی،اس پر امریکی سفارت کارزلمے خلیل نے ٹویٹ کی تھی کہ امریکہ اورنیٹوافغان فوج کی حمایت کرتے رہیں گے، تاہم جنگ بندی کامعاہدہ اسی صورت میں موثرہوگاجب امریکہ بھی طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے،ویسے بھی انٹیلی جینس کی ذمہ داری پروہاں موجودامریکی فوج عسکری آپریشن کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوسکتی اورجوکام وہ ایک لاکھ فوج کے ساتھ نہیں کرسکاوہ ساڑھے 8ہزارفوج کے ساتھ کیاکرے گا۔
اس طرح منظرنامہ یہ بنتاہے کہ معاہدہ ہونے کے بعد کابل حکومت صرف کابل تک محدودہوجائے گی،باقی پورے افغانستان پر طالبان کی حکومت ہوگی۔انہیں علاقائی حمایت پہلے ہی حاصل ہوچکی ہے،حال ہی میں انہوں نے چین کابھی دورہ کیا،انڈونیشیابھی گئے،ازبکستان میں بھی حکام سے ملاقاتیں کیں،دسمبر2018ء میں ایران
بھی گئے تھے۔گویاوہ خطے میں اپنے لیے پہلے ہی جگہ بناچکے ہیں۔امریکہ سے معاہدے میں تھوڑی بہت لچک دکھانا طالبان کے لیے بے حدعقل مندانہ طرزعمل ثابت ہوگا۔
گزشتہ ماہ جب مذاکرات میں تعطل کی سی کیفیت دکھائی دے رہی تھی توخدشات پیداہوگئے تھے کہ کہیں یہ سلسلہ ناکام نہ ہوجائے اوراگرایساہواتومعاملات پھرمیدان جنگ میں جائیں گے جس میں طالبان کے حوصلے جواب بھی دے سکتے ہیں،تاہم لگتاہے کہ طالبان سیاسی میدان کے بھی اچھے کھلاڑی نکلے،کچھ لو،کچھ دوکی بنیادپر اگرانہوں نے امریکہ سے معاہدہ کرلیا توبالآخرصورت حال انہی کے حق میں جائے گی اورامریکہ بہرحال مکمل طورپرافغانستان سے نکلنے پر مجبورہوجائے گا،انٹیلی جینس موجودگی بھی طویل عرصے تک برقرارنہیں رہ سکتی،نومبر2020ء میں امریکی صدارتی انتخاب سے پہلے اسے پوری فوج واپس لے جاناپڑے گی۔
مذاکرات کے تازہ مرحلے میں بعض افغان رہنمادوحہ میں با ت چیت کے مقام پر موجودصحافیوں سے کہتے رہے کہ آ پ نے جانانہیں،ایک تاریخی معاہدے کی خبرآنے والی ہے،اگرچہ یہ بات اس طرح عمل پذیرنہیں ہوسکی تاہم فریقین کی طرف سے کہاگیا ہے کہ مذاکرات کاعمل کامیاب ہوگیاہے،اب صرف اعلان ہوناہے۔جوبھی معاہدہ ہوا،تاریخی حیثیت کاحامل ہوگا جوطالبان کی واپسی کانکتہ آغازبھی ثابت ہوسکتاہے۔