مساجد میں ہی قرنطینہ بنا لیں
Reading Time: 3 minutesراجہ اویس
بنی نوع انسان نے ازل سے آج تک ارتقا کی بہت سی منزلیں طے کی ہیں، تہذیبیں بنتی بگڑتی رہیں۔
انسانی تہذیب، معاشرے اور نفسیات پر مختلف ادوار میں مختلف عوامل اثر انداز ہوتے رہے۔ کبھی موسمیاتی تبدیلی نے اس پر حشر بپا کیا، کبھی جنگوں نے اس کے چہرے کے خدوحال ازسرنو تراشے۔
ایک اور چیز جو مختلف ادوار میں انسانی معاشرے اور انسانی نفسیات میں تغیر کا باعث بنی وہ وبائی امراض ہیں۔
کبھی طاعون نے تباہی مچائی اور کئی زندگیاں ختم کیں اور کبھی فلو جیسی بے ضرر بیماری نے وبا کی صورت اختیار کر کے شہر کے شہر اُجاڑ ڈالے۔
وبائیں مختلف ادوار میں انسانی معاشروں پر حملہ آور ہوتی رہیں، پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر سپینش فلو سے تقریباً 50 ملین افراد کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اکیسویں صدی میں سنہ 2009 میں سوائن فلو سے دنیا کے ڈیڑھ ارب لوگ متاثر ہوئے جبکہ اموات کی تعداد 5 لاکھ کے قریب تھی۔
سائنسی تحقیق اور ترقی کے نتیجے میں ان وبائی امرض سے ہونے والی اموات میں کمی واقع ہوئی لیکن 2019 کے اواخر میں نمودار ہونے والے COVID-19 وائرس نے ایک بار پھر پوری دنیا میں ہلچل مچا دی۔ بظاہر یہ وائرس اسی فلو کی شکل ہے جو گزشتہ صدی کی دوسری دہائی اور اس صدی کی پہلی دہائی میں تباہی مچا چکا ہے، اس وائرس کی وجہ سے تقریباً دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی لاک ڈائون میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
چین جہاں سے اس وبا کا آغاز ہوا اور تین ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں انہوں نے برق رفتاری سے اس وبا پر قابو پا لیا ہے جس کی ایک وجہ سماجی رابطے ختم کرنا تھا۔
چینی حکومت کے لاک ڈائون کی پالیسی پر عمل کرنے اور لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کی وجہ سے آج چین میں وائرس تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس یورپی ممالک نے اس وبا کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ اپنایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک میں اموات کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اٹلی میں 14 ہزار اور سپین میں دس ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔
یورپ اور چین کے بعد ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں سب سے زیادہ اموات رپورٹ ہوئیں، ایران میں اب تک اڑھائی ہزار سے زائد افراد اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔
پاکستان سے زائرین کی ایک بڑی تعداد تفتان کے راستے ایران جاتی اور واپس آتی ہے اور یہ کہنا درست ہو گا کہ کوِڈ 19 زیادہ تر انہی زائرین کے ذریعے پاکستان پہنچا۔
ہمارے ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کا دوسرا بڑا سبب یورپ سے آنے والے لوگ ہیں، یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ بحیثیت قوم ہم آج بھی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں۔
شرمناک عمل یہ بھی کہ تفتان سے لوگوں کو بسوں میں بھر بھر کر بغیر سکریننگ دوسرے صوبوں میں بھیجا گیا جبکہ ایئر پورٹ پر رشوت ستانی جاری رہی، لیکن اس وقت یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں یہ وبا داخل ہو چکی ہے اور ہمیں اس سے بخثیت قوم مقابلہ کرنا ہے۔
احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے نہ صرف ہم اپنی زندگی کی حفاظت کر سکتے ہیں بلکہ دوسرے انسانوں کی زندگی بھی بچا سکتے ہیں ۔
اب تک زیادہ تر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد تو لاک ڈائون میں جا چکے ہیں لیکن مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ اب بھی بضد ہیں کہ وہ مساجد میں اجتماع جاری رکھیں گے۔
حکومت کو یہی مشورہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے مساجد کو ہی قرنطینہ سینٹر بنا دیا جائے تاکہ یہ 24 گھنٹے اللہ کی عبادت کرتے رہیں۔