بندر بنام انسان
Reading Time: 4 minutes”اسلام آباد میں مار گلہ پہاڑی کے ماڈل جنگل کے رہائشی ہم بندر پریشان ہیں کہ انسانی مخلوق کہاں غائب ہو گئی ہے۔ ھمیشہ سے سیلاب، زلزلہ یا کسی بھی قدرتی آفت کا انسان سے پہلے تو ہم بندروں اور پرندوں کو پتہ چل جاتا تھا۔ اب ایسا کیا ہوا ہے کہ اچانک مار گلہ کی پہاڑیوں اور متصل سڑکوں سے انسان غائب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اب ایسی بھی کیا آفت آ گئی ہے کہ جس کا ہمیں پتہ ہی نہیں۔ پاکستان کے ہم غریب بندروں کی زمین اسلام آباد پر جن سرمایہ داروں اور بابو لوگوں نے نسل در نسل قبضہ کر رکھا تھا وہ اچانک کدھر چلے گئے ہیں۔“
حیران و پریشان یہ بندر انسان کی خیریت دریافت کرنے اب اپنی پہاڑیوں کے درختوں پر جھولتے آہستہ آہستہ اسلام آباد کی ان سڑکوں اور گلیوں تک اپنا دائرہ کار بڑھا چکے ہیں جو کبھی ان کے لیے علاقہ ممنوعہ تھیں۔ گلی محلوں میں وہ چند گاڑیاں اور گھروں کی چھتوں پر چند عورتیں اور بچے نظر آتے ہیں جو کبھی پاپ کورن یا کیلے کے ساتھ ان کا دل بہلانے مار گلہ کی پہاڑیوں پر آتے تھے۔ ان بندروں پر نظر پڑتے ہی بچوں کے چہرے کھل اٹھے اور خواتین نے اپنے چہروں پر شناسائی کی مسکراہٹ سجا لی۔ بندروں نے بھی کافی دنوں بعد کسی جاننے والے انسان کو دیکھا تو امید پیدا ہوئی کسی چھلی یا کیلے کی۔ مگر یہ کیا، بات تو ہیلو ہائے سے آگے نہیں بڑھی۔ اور پھر اچانک سب بھاگ کر گھروں کے اندر چلے گئے۔ یہ ہو کیا رہا ہے؟ ان انسانوں نے تو ہماری مار گلہ کی پہاڑیوں اور ان کے درختوں پر ایسے قبضہ کر رکھا تھا کہ جیسے ان کے باپ دادا کی جاگیر ہو۔ اور اب یہ سب ایسے دم دبا کر غائب ہو گئے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ تم جانو اور تمہارے جنگل۔ کیا یہ سب بندر دوست ہو گئے ہیں؟ مارگلہ کے ٹریک فائیو اور ٹریک تھری پر چرند پرند کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، کل ایک چیتا بھی انسانی پیروں کے بنے ٹریک پر انسانوں کی مداخلت سے بے فکر چہل قدمی میں مصروف تھا جیسے کہہ رہا ہو خس کم جہاں پاک آخر انسانیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، تباہ کر کے رکھ دیا تھا حیوانیت کے اصولوں کو اور جنگل کے قانون کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دی تھیں حضرت انسان نے۔ یہاں تک کہ ہمارے اس قانون کو ہم سے پوچھے بغیر انسانی آبادی والے شھروں میں لاگو کرنے کی گھناؤنی کوشش بھی جاری تھی- دوسری طرف انسان کی تلاش میں سرگرداں بندروں کا ایک گروہ ویران مار گلہ روڈ سے ہوتا ہوا ھل روڈ کی جھاڑیوں کے راستے سپر مارکیٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔
”دن کا وقت تھا مگر بادلوں نے ملگجے کا منظر پیش بنا رکھا تھا۔ کچھ گنے چنے انسان نظر آئے جنھوں نے نقاب اوڑھ رکھا تھا۔
نجانے ایک دوسرے سے پردہ کر رہے تھے یا ہم بندروں کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہے تھے یہ حضرت انسان۔ ہم کون سا ان کو ان کی شکلوں سے اتنا پہچانتے ہیں- جیسے ہم انسانوں کی نظر میں ایک جیسے ہی دکھتے ہیں اسی طرح یہ انسان بھی تو ہمیں ایک جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سارے انسان چند دوکانوں کے باہر ایک دوسرے سے فاصلے پر ایسے کھڑے تھے جیسے اپنا کیلا چھن جانے کا خوف ہو- کبھی ہم بھی انسانوں کے انتظار میں اپنے جنگل سے نکل کر سڑک پر ایسے ہی ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوتے تھے۔ لگتا ہے انسان ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ ایک بندے نے ہمیں گھورنا شروع کر دیا – نقاب کے پیچھے وہ ہمیں دیکھ کر خوش تھا یا ناراض سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ پھر اچانک وہ کہیں دوکان میں گھس گیا اور واپس آیا تو تھیلے میں شاید کیلا تھا۔ مگر اب کی بار اس نے کوئی آفر بھی نہیں ماری، یوں لگ رہا تھا کہ انسانوں کو اچانک ہی کیلے کی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا- شاید وہ سمجھتے ہیں کہ کیلے کھانے کی وجہ سے ہی ہم اتنے سمارٹ اور تندرست ہیں- جو جو بھی دوکان سے باہر نکل رہا ہے ہمیں دیکھ کر ایسے ہاتھ ہلاتا ہے جیسے برسوں بعد کوئی جاننے والا سامنے آ جائے- اچانک سرخ و نیلی تیز بتی والی گاڑی سے نیلی وردی والا نکلا اور سیدھا ہماری طرف بڑھا ہم ڈر کے درختوں پر چڑھ گئے تو اس نے کچھ کیلے جیب سے نکال کر ہماری طرف اچھال دیے۔ ایسی وردی والے عام طور پر بڑے چہرہ شناس ہوتے ہیں۔ ہمارے چہروں دور سے دیکھ کر وہ شاید جان گیا تھا کہ کیلے کی تلاش ہمیں یہاں تک لے آئی تھی- کچھ ایسے ہی وردی والے لوگ عام انسانوں کو ٹریک تھری پر آنے سے بھی روک رہے تھے- تو جناب ادھر کیلے فٹ ہاتھ سے ٹکرائے ادھر ہم میں سے تیز ترین ان پر جھپٹ پڑے- اللہ بھلا کرے نیلی وردی والوں کا ان سے بہتر انسانوں کے غائب ہونے کی وجوہات اور اس کے نقصانات کے بارے میں کون جان سکتا ہے- انسانوں کے اچانک سڑکوں سے غائب ہونے پر ان کا حال بھی ہماری طرح قابل رحم دکھائی دیتا ہے۔
بہرحال یہ وردی والا انسانوں کے یوں لاپتہ ہونے پر ہماری طرح دُکھی دکھائی دیا- اس کے پاس دینے کو شاید تھوڑے سی ہی کیلے تھے جو اس نے بچا کر ہمیں دئیے تھے- ہم کس منہ سے اسکا شکریہ ادا کرتے کچھ سمجھ نہیں آئی- حضرت انسان کے پاس اب اور کچھ دینے کو بچا بھی نہیں تھا- اس لئیے واپس اپنے جنگل کی راہ لی- ہم پہاڑئیے پہاڑ پر ہی خوش رہتے ہیں – زندگی رہی تو یہ انسان ایک دن خود چل کر ہمیں کیلے پیش کرنے آئے گا- یہ جیسا بھی ہے ہمارا ایک دوسرے کو دیکھے بغیر بھی اب گذارا نہیں۔“