کالم

مذہب اور سائنس کا کیا مقابلہ؟

جون 8, 2020 2 min

مذہب اور سائنس کا کیا مقابلہ؟

Reading Time: 2 minutes

کل یوٹیوب پر معروف نفسیات دان آثر اجمل کا ایک لیکچر سنا۔ جو کہہ رہے تھے کہ ہمارے یہاں سائنس سے پہلے سائنسی رویے کی ضرورت ہے۔

تو پرویز ہود بھائی پر اعتراضات یاد آگئے۔ اکھے سائنس دان ہے تو سائنس پڑھائے باقی مسائل پر بات کیوں کرتا ہے۔

سائنس کے حالات ہمارے یہاں خراب ہیں لیکن سوشل سائنسسز اور مذہبی علوم کے بھی کوئی بہت اچھے نہیں۔

لیکن سائنس سے پہلے سائنسی طرز فکر ضروری ہے۔ سائنسی طرز فکر مختصرا خواہشات یا خوابوں کی بجائے شواہد کی بنیاد پر نتائج پر پہنچنے کا نام ہے۔

جب آپ کا ایٹمی سائنسدان عجوہ کھجور کی تبلیغ کرتا ہو اور خود جدید ترین ہسپتال میں علاج کرواتا ہو تو بندہ کیا کہہ سکتا ہے؟

ایک طالبانی مجاہد نے ایک دفعہ فیس بک پر بتایا کہ اگر ایک چیز ہمیں اپنی آنکھوں سے نظر آرہی ہو لیکن اس کے خلاف اگر کوئی حدیث ہو چاہے ضعیف ہی ہو تو ہم حدیث کو مانیں گے ۔

مذہب اور سائنس کو گڈ مڈ کرنے سے سائنسی طرز فکر اور مذہب دونوں کا بھلا نہیں ہوتا۔

مسلم دنیا میں غیر مسلم ہی سہی ڈاکٹر عبدالسلام سے بڑا سائنسدان شاید ہی کوئی ہو۔
قبلہ ایک انٹرویو میں فرما رہے تھے کہ قرآن کی آیت ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے یہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن جب الٹرا ساونڈ نے پیدائش سے پہلے بچے کی جنس بتا دی تو ڈاکٹر عبدالسلام پریشان ہوگئے۔ عرصہ پریشان رہے پھر کسی کانفرنس میں غالبا کسی مصری عالم سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ضروری نہیں یہ آیت جنس ہی متعلق ہو یہ اس بارے میں بھی ہوسکتی ہے کہ بچے نے بعد میں نیک بننا ہے یا بد، عالم بننا ہے یا جاہل ۔اور ڈاکٹر سلام مطمئن ہوگئے۔ اب قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا قرآن کو جدید سائنس سے تقابل ہمارے خیال میں غیر سائنسی رویہ تھا۔

اب یہ طرز فکر نہ مذہبی ہے نہ سائنسی۔ صدیوں سے مسلمان علما اس آیت کو جنس ہی کے متعلق سمجھتے آئے ہیں۔ جہاں تک نیک بد یا عالم جاہل کا تعلق ہے تو وہ ماں کے پیٹ ہی تک محدود نہیں بلکہ پیدائش کے بعد بھی بچے کے بارے شاید کوئی نہیں جانتا بہت سے لوگ بڑے ہوکر نیک سے بد یا بد سے نیک ہوجاتے ہیں۔

مذہب کو سائنس کے مقابلے میں لا کھڑا کرنا ہی غلط ہے۔ سائنس علم ہے حواس کا۔ جبکہ مذہبی علم کا ذریعہ وحی ہے۔
سائنس مادی مسائل حل کرنے کا علم ہے جبکہ مذہب اخلاقی یا روحانی مسائل کا علم ہے۔

تعویز، سنا/صنا مکی سے ممکن ہے کچھ لوگوں کو فائدہ ہوتا ہو لیکن سائنسی طرز فکر یا جدید طب میں کسی نتیجے کی وجہ کسی دوا کو قرار دینے کا جو کلینکل ٹرائل کا طریقہ ہے یہ اس پر پورے نہیں اترتے۔

ثنا اللہ گوندل ایڈووکیٹ

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے