پاکستانی معیشت اور اگلے تین سال
Reading Time: 2 minutesپاکستان میں سنجیدہ سوچ رکھنے والے افراد کی تعداد شاید دس پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی
میرا یہ خیال ہے کہ ذیل میں دیے نکات پر سب سوچنے سمجھنے والے لوگوں کا اتفاق ہوگیا ہوگا۔
١۔ پاکستان کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ وسائل کی کمی ہے۔
٢۔ کرپشن کا عنصر چیک اینڈ بیلینس کو بہتر بنانے سے کنٹرول ہوسکتا ہے جس پر ہر حکومت نے کام کیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر مزید ڈائلاگ کیا جائے اور اس میں مزید بہتری لائی جائے۔
٣۔ موجودہ حکومت اگلے تین سال بھی معیشت کو بہتر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی کیونکہ پاکستان کا 2019-20 میں خرچ نو ہزار تین سو ارب اور آمدن چار ہزار ارب روپے کے لگ بھگ رہی ہے اور 2020-21 میں معیشت میں نمو نہ ہونے کے برابر ہوگی اور مزید ٹیکسز لگانے سے معیشت اور سست ہوجائے گی اور اس بات کے امکانات ہیں کہ مالی خسارہ مزید بڑھ جائے اور اسی طرح ایکسپورٹ کم ہونے کے امکانات سے تجارتی خسارہ بھی بڑھ جائے۔
۴۔ موجودہ حکومت پر مارکیٹ کی طاقتوں کا اعتماد نہیں ہے اور فوری طور پر اس اعتماد کے بحال ہونے کا امکان بھی نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت سرمایہ کار کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے بدنام کرنے کی روش میں مبتلا نظر آ رہی ہے۔
۵۔ بظاہر موجودہ حکومت سیاسی استحکام کی ضرورت پر یقین نہیں رکھتی بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کو اپنی سیاسی بقا کا ضامن سمجھتی ہے۔
٦۔ پاکستانی روپے کی قدر کم ہونے کے بھی واضح امکانات ہیں جس سے مہنگائی بڑھے گی اور مقامی سرمایہ کار کے لئے آسان ترین راستہ بیرون ملک کرنسی میں سرمایہ کاری کرنا ہی ہوگا۔
٧۔ آنے والے تین سالوں میں سرمایہ تیزی سے بیرون ملک جائے گا اور بہترین ذہن بھی پاکستان سے بھاگنے کو ترجیح دے گا۔
٨۔ خطے میں سیاسی حالات ابتر ہونے کے امکانات بھی روشن ہیں کیونکہ خطے کا سب سے بڑا ملک بھارت کسی طور پر پاکستانی سرکاری ملازمین یا ان کے زیر سایہ رہنماؤں سے گفتگو کے لیے تیار نہیں ہے۔
٩۔ سیاسی میدان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ موجودہ حکومت کی حمایت اور کم ہوگی کیونکہ بیروزگاری پھیلنے سے بددلی پھیلے گی۔
١٠۔ کمزور سیاسی پوزیشن کی وجہ سے حکومت کو کارپوریشنز کی نجکاری میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا اور ان کا نقصان بہت تیزی سے بڑھے گا۔
١١۔ آنے والی کسی بھی حکومت کے لئے مسائل اس قدر سنگین ہوں گے کہ یہ ملک تقریباً چلائے جانے کے قابل نہیں رہے گا۔
اس قدر سنگین مسائل کا حل سیاسی استحکام اور ایک لمبی مدت کی پالیسی میں چھپا ہے جس کا ادراک بادشاہ گر قوتوں کی فہم و فراست سے ماورا نظر آتا ہے۔