کالم

غداری اور وفاداری کے فیصلے نہ کریں

جون 10, 2020 3 min

غداری اور وفاداری کے فیصلے نہ کریں

Reading Time: 3 minutes

ایک دوست نے لکھا کہ تحریک انصاف کی ناکامی کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اب ووٹ نہیں دوں گا کیونکہ باقی آپشنز پی ٹی آئی سے بھی خراب ہیں۔

باقی آپشنز یا پارٹیز سے ان کی مراد ن لیگ اور پی پی پی ہیں، جن پر یہ الزام ہے کہ وہ کرپٹ تھے۔ یقینی طور پر وہ دوست صاحب عقل و شعور ہیں اور انہوں نے اپنا فیصلہ اپنی پرسیپشن یا تاثر کے مطابق کرنا ہے اور اس میں وہ آزاد ہیں۔

میری نظر میں پاکستان میں ملکی سطح پر تین ہی سیاسی جماعتوں کی عوام میں جڑیں ہیں یا ان کی عوامی حمایت موجود ہے۔ مجھے عوامی شعور پر جتنا بھی شبہ ہو لیکن ایک بات یقینی ہے کہ عوام نواز شریف، بھٹوز اور عمران خان کی جملہ خامیوں کے باوجود ان کے کسی متبادل کے لیے تیار نہیں۔

ریاستی اداروں نے بھٹوز اور نواز شریف کو سیاسی طور پر ختم کرنے اور عمران خان کو سیاسی طور پر ابھارنے کے لئے گاہے بگاہے اپنی پوری طاقت استعمال کی لیکن عوامی رائے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔

عمران خان کی پروجیکشن ایک مسیحا یا سپر ہیرو کے طور پر کی گئی تاکہ بقیہ دونوں کو جو عوامی حمایت کا غرہ ہے اسے دور کیا جائے، اور یہی چیز بالآخر عمران خان کے لئے زہر قاتل ثابت ہوئی، ملکی مسائل نہ تو اس قدر سادہ تھے اور نہ ہی عمران خان کوئی سپر ہیرو تھے۔ توقعات کا ایک ہمالیہ کھڑا کیا گیا اور وہ بھی ایک ایسے شخص کے گرد جو چیزوں کو عمومی طور پر ضرورت سے زیادہ سادہ انداز میں دیکھنے کا قائل تھا۔

جن لوگوں نے اس سراب کا پیچھا کیا ان میں سے کچھ تو تھک کر رک گئے ہیں لیکن کچھ لوگ ابھی اس ایذا رسانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

اب اہم سوال یہ ہے کہ اگر موم کا ایک پتلا پگھل گیا ہے تو آپ اس ملک کے سارے مسائل سے لاتعلق ہو کر ایک طرف بیٹھ رہیں یا اپنی سی کوشش جاری رکھیں؟

اس سوال کا جواب میرے دوست نے تو یہ دیا ہے کہ وہ اب لاتعلقی اختیار کریں گے، یہ ایک ہائپوتھیٹک جواب ہے کیونکہ کوئی بھی باشعور شخص اپنے آپ کو لاتعلق رکھ نہیں سکتا۔

اس معاملے میں میرا سیاسی شعور مجھ سے وہی کچھ کہتا ہے جسے اکثر مرحوم ارشاد احمد حقانی دوہرایا کرتے تھے کہ بجائے اس کے کہ ہم ایک نئی لیڈر شپ ابھارنے کی کوشش کریں مناسب عمل یہ ہوگا کہ پہلے سے موجود لیڈر شپ جس نے یقینی طور پر بہت سے غلطیاں کی ہیں کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ تائب ہو کر اس ملک کو ان مسائل سے نکالنے کی کوشش کریں جن کا ایک معتد بہ حصہ ان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔

میرا ماننا یہ ہے کہ سیاسی لیڈر شپ نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے، مثلاً اپنی تمام تر طاقت استعمال کرنے کے باوجود نواز شریف پر بنائے گئے کیسز تیس تیس سال پرانے ہیں اور ان کے آخری دو ادوار میں ان پر کرپشن کا کوئی کیس بھی نہیں بنایا جاسکا۔

اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف اور زرداری کا سیاسی شعور عمران خان سے کہیں زیادہ ہے بلکہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ زرداری درست طور پر ایک مدبر کی شکل میں نظر آتے ہیں، اس کی وجہ یقینی طور پر یہ ہے کہ یہ دونوں افراد سسٹم کا حصہ رہے ہیں اور ان کو مسائل کا حقیقی ادراک ہے۔

مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اگر نواز شریف اور زرداری کی ادوار میں ان کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے ان سے ایسا ہی تعاون کرتی جیسا عمران خان سے کر رہی ہے تو خطے اور ملک کے حالات یہ نہ ہوتے۔

آپ کو اگر ماضی کی کچھ جھلکیاں دکھاوُں تو بات زیادہ واضح ہوسکے گے۔
وہی موودی جو آوُٹ آف دی وے افغانستان سے بھارت جاتے ہوئے پاکستان رک گیا تھا،آج ہم اس سے مذاکرات کی بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں،اسی طرح سرل المیڈا سے کئے گئے جس انٹرویو کو غداری قرار دیا گیا تھا اس میں کہی گئی تمام باتیں عمران دور میں مان لی گئیں اور حافظ سعید پر پابندیاں عائد کی گئیں، مدرسے بند کئے گئے۔

میری رائے یہی ہے کہ باشعور لوگوں کو ہر فورم پر علی الاعلان یہ بات کہنی چاہئیے کہ اس ملک کو سیاستدان ہی چلا سکتے ہیں، عوام جسے منتخب کریں اقتدار اس کے حوالے کیا جائے، باقی پلئیر زیر ناف حملوں سے باز رہیں اور اسے پورا وقت دیں، اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو سرنڈر کرے کہ ملک چلانا سیاستدان کا کام ہے تو معاملات سلجھنا شروع ہوجائیں گے، یہ راتوں رات ہونے والا معاملہ نہیں ہے لیکن اس کے اصول طے کرنے ضروری ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے